آٹھ اکتوبر کے ہولناک زلزلے کو 17سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ جواں ہمت متاثرین زلزلہ نے اپنی مدد آپ کے تحت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑنے ہونے کی عظیم مثال قائم کی ہے۔ کئی سال مسلسل شیلٹروں میں گزارنے کے باوجود ان کی ہمت اور حوصلے جواں ہیں -یہ کشمیر اور پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا جس نے کشمیر کے تین اضلاع کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ کئی روز تک آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہا اور مجموعی طور پر 978 آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے۔ اس زلزلے میں تقریباً 70 ہزار افراد شہید ہوئے جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے سے بیگھر ہونے والے افراد کی تعداد 3.5 ملین تھی۔ زلزلے میں 19 ہزار بچے فوت ہوئے جن کی اموات زیادہ تر سکولوں کی عمارتیں گرنے سے ہوئیں۔ تقریباً اڑھائی لاکھ کے قریب مویشی بھی ہلاک ہوئے۔ غرض یہ کہ زلزلہ دہ علاقوں کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ صوبہ پنجاب ،آزاد کشمیراور خیبر پختونخوا میں 7.6ریکٹر اسکیل کی شدت سے آنے والا زلزلہ 2005میں دنیا کا چوتھا بڑازلزلہ تھا۔ جب کہ اس سے قبل دسمبر2004 میں 9.0ریکٹر اسکیل کی شدت سے انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی کی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب کہ ایران کے شہر بام میں 2003 میں زلزلے سے 30ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کی شدت 6.7تھی۔ جنوری 2001میں بھارتی صوبے گجرات میں 20ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جون 1990میں شمال مغربی ایران میں زلزلے کے نتیجے میں 40ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ جولائی 1976میں چین میں آنے والے زلزلے سے ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل مئی 1970میں پیروکے شماؤنٹ ہواسکاران ہر میں زلزلے اور مٹی کے تودے گرنے سے 70ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اسی طرح دسمبر 1939ء میں ترکی کے شہر ایرزنکن میں تقریباً 40ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔ جبکہ 1935میں کوئٹہ میں آنے والے زلزلے سے 50ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1927ء میں چین میں زلزلے کی تباہی سے 80ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ چین ہی میں 1927میں ایک اور زلزلے میں دولاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔1923ء میں جاپان کے شہر اوکلاہوما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ جب کہ چین ہی میں 1920میں آنے والے ایک زلزلے سے 2لاکھ 35ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔1908میں اٹلی میں ایک زلزلہ آیا جس نے 83ہزار افراد کو ہلاک کر دیا۔ بھارتی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ہفتہ کے روز آنے والا شدید زلزلہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 120 سال کے دوران آنے والا شدید ترین زلزلہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں مستقبل کے پاکستان میں زلزلوں کے ممکنہ نقصانات کو کم کرنے کیلیے کیا اقدامات کرنے ہوں گے؟ ہمارے سامنے ایسے بہت سے ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو اس سلسلے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ حالیہ تکنیکی ترقی اور تحقیق کے نتیجے میں امریکا، جاپان اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں بہت سے نئے، زیادہ قابل اعتماد اور محفوظ تعمیراتی طریقے متعارف کرائے گئے ہیں جن کے نتیجے میں زلزلوں کے سماجی اور اقتصادی نقصان کو نمایاں طور پر کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
دیگر بہت سے ترقیاتی اقدامات کی طرح ہم قدرتی آفات کی تیاری اور نقصانات سے بچاؤ کے شعبوں میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں کئی محاذوں پر بیک وقت لڑنے کی ضرورت ہے۔ یہاں میں پاکستان میں زلزلوں کو شکست دینے کیلیے کیطویل مدتی اقدامات کے چار اہم اجزاء کا مختصر طور پر ذکر کروں گا:
ایک بہترین، اعلیٰ تحقیقاتی معیارات کے مطابق قومی بلڈنگ کوڈ: بلڈنگ کوڈ کسی بھی ملک میں عمارات کے ڈیزائن اور حفاظتی و تعمیراتی معیارات اور قدرتی آفات کے دوران ان کی اطمینان بخش کارکردگی کو یقینی بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ 2005 میں کشمیر کے زلزلے کے بعد پاکستان کے بلڈنگ کوڈ میں کئی حفاظتی شقیں متعارف کرائی گئی ہیں، تاہم اس سلسلے میں مزید اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ مثلاً ملک کے کئی بڑے اور گنجان آباد شہروں میں زلزلوں کے خطرے کا مزید درست تعین انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح ملک کے تمام علاقوں میں مٹی کی ارضیاتی خصوصیات، عمارتوں کے محفوظ ڈیزائن اور تجزیئے کے جدید طریقہ ہائے کار کے استعمال کی ہدایات وغیرہ شامل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
قدرتی آفات کی تیاری اور خطرے سے بچاؤ، ہنگامی ردِعمل ٹاسک فورسزاور ریسکیو ایجنسیوں کے قیام، اور متعلقہ قانون کے نفاذ کیلیے سرکاری اقدامات: اِس پہلو پر شاید سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سترہ برس بیت گئے
Oct 13, 2022