وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے تک ملک کا کل قرضہ چھ ہزار ارب روپے تھا اور2008سے2018ء تک ہم نے23000ہزار ارب روپے قرضہ لیا۔ چھ ہزار ارب روپے میں ہم نے اسلام آباد کا شہر بنا لیا، گوادر کو خرید لیا، پاکستان کی پوری فوج کھڑی کر لی، ہم نے نیول بیسز بنا لیں ، ہم ایٹمی طاقت بن گئے، ہم نے موٹرویز بھی بنا لیں ،10سال میں ہم نے23ہزار ارب روپے قرضہ لیا وہ کدھر گیا، یہ وہ پیسہ ہے جو بدقسمتی سے دبئی ، لندن اور امریکہ میں چلا گیا اور اس کی وجہ سے ہم نے رواں سال12ارب ڈالرز کا قرض واپس کرنا ہے۔ ہم چیزیں امپورٹ کر رہے ہیں اور اوپر سے 12ارب ڈالرز کا قرضہ واپس کرنا ہے تو پھر بتائیں حکومت کے پاس سبسڈی دینے کے لئے کیا رہ جائے گا، یہ وہ مشکل ہے جس کا ہمیں 2008سے2018تک کے10سالوں میں شکار کیا گیا۔ یہ مہنگائی کی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے ہم نبرد آزما ہیں، لیکن ہم نے آکر اس سمت کو تبدیل کیا ہے اور جس طرح کنسٹرکشن، ٹیکسٹائل اور سافٹ ویئر پاکستان میں بوم کررہی ہے مجھے امید ہے ہم آئندہ چند سالوں میں اپنی تمام سمت کو تبدیل کردیں گے اور بڑی جلدی ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوں گے اور قومیں اس وقت تک آگے نہیں جاسکتیں جب تک وہ اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہوتیں۔ کوروناوائرس کی وجہ سے پوری دنیا کو مہنگائی کا سامنا ہے۔ ہم نے پچھلے 20سالوں میں یا اس سے بھی پہلے ہم نے صرف ایک کام کیا ہم نے کہا کہ ہم نے کچھ اپنا نہیں بنانا ، ہم نے ہر چیز باہر سے امپورٹ کرنی ہے۔ ان خیالات کااظہار فواد چوہدری نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ فواد چوہدری نے کہا کہ جرمنی پاکستان سے300یا400ملین ڈالرز کا سرجیکل سامان خریدتا ہے اور پھر وہی سامان بھارت کو 700ملین ڈالرز میں فروخت کردیتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہمارے ہاں اپنی ایکسپورٹس کو بڑھانے کے بڑے مواقع ہیں، دنیا کی 66فیصد آبادی اسلام آباد سے ساڑھے تین گھنٹے کی فلائٹ کی مسافت پر ہے، سعودی عرب، مشرق وسطیٰ، بحرین ، دبئی، کوئی ملک ہو گیا، ان کی فوڈ باسکٹ ہمیشہ ہی امپورٹ کی بنیاد پر رہے گی کیونکہ ان کا ماحول ایسا ہے، اگر پاکستان صرف عرب ممالک کی فوڈ مارکیٹ کو ٹیپ کر لیتا ہے اور ہم یہاں پر اپنی فارمنگ کو جدید طرز پر ڈھال لیں اور لائیو اسٹاک کو جدید طرز پر استوار کر لیں تو اندازہ کر لیں کہ پاکستان کتنی دنیا کو فیڈ کر سکتا ہے۔ ہر جو مشکل ہوتی ہے اس کے پیچھے بہت آسانیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی طور پر مسئلہ کیا ہے، ہم چیزیں بناتے ہیں ، اس کی سرٹیفیکیشن پر توجہ نہیں دیتے۔ میں کمپنیوں کے سی ای اوز سے کہتا ہوں کہ وہ جو بھی چیزبنائیں وہ بین الاقوامی معیار کی بنائیں تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بک سکے۔ انہوںنے کہا کہ مہنگائی ہے تاہم یہ کیوں ہے، بین لاقوامی مارکیٹ میں قیمتیںاوپر جارہی ہیں ، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمت کبھی اتنی اوپر نہیں گئی، تیل کی قیمت 80ڈالرز سے اوپر چلی گئی ، گھی مہنگا ہے، 2018میں جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تھی تو بین الاقوامی مارکیٹ میں پام آئل کی قیمت 518ڈالر میٹرک ٹن تھی جو اس وقت1200میٹرک ٹن پر چلی گئی ہے یعنی دوگنے سے بھی اوپر چلی گئی ہے، اسی طریقہ سے تیل کی قیمتیں 40فیصد سے اوپر چلی گئی ہیں، گندم کی قیمتیں بھی اوپر چلی گئی ہوئی ہیں، کوروناوائرس کی وجہ سے پوری دنیا کو مہنگائی کا سامنا ہے۔ ہم اس مہنگائی کو کیسے نیچے لاسکتے تھے، ہم مہنگائی کو اس طرح نیچے لا سکتے تھے کہ ہمارے پاس ڈالرز ہوں اور ہم باہر سے چیز مہنگی خریدیں اور اس پر سبسڈی دیں اور لوگوں کو سستی دے دیں، اب ہمارے پاس ڈالرز نہیں ہیں، ہمارے پاس ڈالرز کیوں نہیں ہیں، ہمارے پاس ڈالرز دو تین وجوہات کی وجہ سے نہیں ہیں۔ ہم نے پچھلے 20سالوں میں یا اس سے بھی پہلے ہم نے صرف ایک کام کیا ہم نے کہا کہ ہم نے کچھ اپنا نہیں بنانا ، ہم نے ہر چیز باہر سے امپورٹ کرنی ہے۔ پاکستان کو دبئی اور سنگاپور کی معیشت پر ماڈل کیا گیا جو ممکن ہی نہیں تھا،دبئی ایک چھوٹا سا شہر ہے، 30یا40لاکھ کی آبادی ہے اور سنگاپور کی آبادی بھی30یا40لاکھ ہے، ان کی معیشت کی مثالیں20،22 کروڑ آبادی پر پورا نہیں اتر سکتیں، لہذا ہم نے اپنی صنعت بند کردی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے دو طریقے ہیں یا تو ہماری ایکسپورٹس اتنی ہوں کہ جو ہم باہر سے چیزیں منگواتے ہیں وہ پوری ہوجائیں اور ہمارے پاس سرپلس ڈالرز ہوں جو ہم ضروری چیزوں میں ڈالیں اور لوگوں کو سستی چیزیں دیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024