محافظ ِ پاکستان کو خراجِ عقیدت
انسانی تاریخ میں جب رب کائنات اپنے کسی بندے سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے تو اس کی شخصیت اور کردار کو صراط مستقیم پر رکھتا ہے۔ اللہ تعالی اس شخصیت کے لیے امکانات اور آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اللہ کے پسندیدہ بندے تھے جن سے بڑا کام لینا مقصود تھا۔ اللہ نے قائد اعظم کو زندگی بھر امانت دیانت اور صداقت کے اصولوں کے ساتھ جوڑے رکھا۔ قائد اعظم کی یہ بنیادی خوبیاں تھیں جن کی طاقت سے وہ کروڑوں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدلقدیر خان پاکستان کی دوسری شخصیت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور مشن کے لیے تیار کیا ان کو دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایٹمی سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے اور ایک ایسی ریسرچ لیبارٹری میں کام کرنے کے اسباب فراہم کی جو یورنیم کی تحقیق پر کام کر رہی تھی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ایٹمی صلاحیتوں کا اعتراف دنیا کے نامور سائنسدانوں سکالرز اور محققین نے کیا ہے۔ سی آئی اے کے چیف جارج ٹینٹ اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب" ایٹ دی سینٹر آف دی سٹارم" میں لکھتے ہیں" اور میں جنرل مشرف سے ایک ایسے شخص ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف اقدام کرنے کی بات کرنے جا رہا تھا جس نے انفرادی کاوشوں سے پاکستان کو ایک ایٹمی ریاست بنا دیا تھا اور جو قوم کا ہیرو تھا "۔
جنرل پرویز مشرف پاکستان کی تاریخ کا وہ جرنیل تھا جس نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کی ایک فون کال پر امریکہ کی سات شرائط تسلیم کرلی تھیں اور جنرل مشرف کے اس فیصلے کے بعد امریکہ کے صدر جارج بش بھی حیران رہ گئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکی دباؤ میں آکر پاکستان کے محسن اور محافظ پاکستان کے ساتھ جو شرمناک سلوک کیا اس کا فیصلہ اللہ تعالی کی عدالت میں ہی کیا جائے گا۔ ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کا نام نسل در نسل یاد رکھا جائے گا جنہوں نے پاکستان میں ایٹمی صلاحیت کی بنیاد رکھی اور اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیا۔ یہ ذولفقارعلی بھٹو ہی تھے جنہوں نے نے 1976 میں ڈاکٹر قدیر خان کو پاکستان بلایا اور ان کو ایٹمی صلاحیت پر کام کرنے کے لیے آمادہ کیا۔
جب بیوروکریسی نے ڈاکٹر قدیر خان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی تو ذولفقارعلی بھٹو نے کابینہ کا ایک اجلاس بلایا اور اس میں واشگاف اور دوٹوک لفظوں میں کہا کہ ڈاکٹر قدیر خان کی کوئی فائل نہ روکی جائے اور وہ جس ادارے کو بھی ٹیلی فون کریں یہی سمجھا جائے کہ وزیر اعظم بھٹو ٹیلی فون کر رہے ہیں۔ محافظ پاکستان ڈاکٹر قدیر خان نے کئی بار اعتراف کیا کہ اگر ذولفقارعلی بھٹو ان کی پر عزم اور سرگرم سرپرستی نہ کرتے تو ان کے لیے ایٹمی صلاحیت کا حصول ممکن نہ ہوتا سابق صدر غلام اسحاق خان اور جنرل ضیاء الحق نے عالمی دباؤ کے باوجود ایٹمی صلاحیت کو تکمیل تک پہنچایا۔
پاکستان کا ازلی اور ابدی دشمن بھارت پاکستان کو آزاد اور سلامت نہیں دیکھنا چاہتا اس کو 1971میں جب موقع ملا تو اس نے پاکستان کے دو ٹکڑے کردیئے اور اپنی قوم کو پاکستان کے مزید چار ٹکڑے کرنے کی خوشخبری سنادی۔ ان حالات میں ڈاکٹر قدیر خان نے اپنی زندگی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے وقف کر دی اور قومی جذبے اور جنون کے ساتھ شب و روز محنت کر کے پاکستان کو ایٹمی سائبان مہیا کیا۔ ان کو نسل در نسل محافظ پاکستان کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی اخبار میں" سحر ہونے تک" کے عنوان سے کالم لکھ کر پاکستانی قوم کی تعلیم و تربیت کرتے رہے اور ان کے اخلاق سنوارنے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے آخری کالم میں نصیحت کی کہ مسلمان اگر اللہ کے ساتھ مضبوط رشتہ جوڑ لیں اور قرآن سے رہنمائی حاصل کریں تو ان کی تمام مشکلات آسان ہو سکتی ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سماجی اور فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ راقم نے ان کو اپنی کتاب معاملات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں لاہور تشریف لانے کی دعوت دی تو انہوں نے خوشی سے دعوت قبول کرلی۔ میرا ان کے ساتھ باہمی اعتماد اور احترام کا تعلق قائم رہا ۔ جب میں نے پاکستان جاگو تحریک کے لئے ان سے اعزازی مشیر اعلیٰ بننے کی درخواست کی تو انہوں نے میری درخواست کو قبول کیا۔ وہ ہر اس تحریک کو پسند کرتے تھے جس کا مقصد عوام کو بیدار کرنا باشعور کرنا اور منظم کرنا ہوتا تھا۔ ان کی پختہ رائے تھی کہ جب تک پاکستان کے عوام رہبر اور رہزن میں فرق نہیں کریں گے اس وقت تک نہ تو پاکستان مضبوط اور مستحکم ہو سکے گا اور نہ ہی عوام کا اپنا مقدر تبدیل ہو سکے گا۔
ان کو پاکستانی قوم سے یہ شکایت تھی کہ پاکستان کے عوام اپنے دوست اور دشمن کو نہیں پہچانتے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ جس شخصیت نے پاکستان کے عوام کو اپنی آزادی کو قائم اور دائم رکھنے کے لئے ایٹمی سائبان فراہم کیا خود اسے ایک طویل عرصہ تک اپنے چھوٹے سے گھر میں نظر بند رہنا پڑا گویا اس کی اپنی آزادی سلب کر لی گئی۔
میری دوبار ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ان کے گھر اسلام آباد میں بھی ملاقات ہوئی وہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے وہ سادگی اورکفایت شعاری سے اپنی زندگی گزارتے رہے ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی ایک سیاسی جماعت بھی تشکیل دی مگر افسوس کہ پاکستان کے عوام نے ان کا ساتھ نہ دیا اور پاکستان کی تاریخ میں جب بھی کسی نیک نیت محب وطن عوام دوست لیڈر نے سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کی اس کی عوام نے کبھی پذیرائی نہیں کی۔ قومی لٹیرے ہی پاکستان کے عوام کے رہبر اور رہنما بنتے رہے۔
انشاء اللہ ایک دن آئے گا کہ پاکستان کے عوام جاگ اٹھیں گے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام قومی لٹیروں سے اپنی لوٹی ہوئی دولت کا حساب لیں گے۔ عمران خان نے حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے جن قومی لٹیروں کو نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کر کے این آر او جاری کر دیا ہے عوام انشاء اللہ اس کے پرزے پرزے کر دیں گے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں ہزاروں افراد نے بڑے جوش و خروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ شرکت کی ان کی تجہیز و تکفین سرکاری پروٹوکول کے ساتھ کی گئی ۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی نامور شخصیات نے ڈاکٹر قدیر خان کی رحلت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ دو اشعار محافظ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نذرکرتا ہوں۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
اے وطن کے پاسبان تیری عظمت کو سلام
تیری ہمت تیری جرات تیری رفعت کو سلام
٭…٭…٭