ہر پاکستانی کے ذہن میں سوال ہے کہ سیاسی گرما گرمی کا ہدف کون ہے؟ نواز شریف پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہو چکا ہے۔ پہلے ٹی وی چینلز کو انکی تقریر نشر دکھانے کی اجازت دی گئی پھر پیمرا نے پابندی لگا دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی تقاریر پر پابندی کیلئے درخواست مسترد کر دی کہ سیاسی مواد سے متعلق معاملات عدالتوں میں لانا عوامی مفاد میں نہیں۔ ملک میں غداری کے الزامات کی سیاست ہو رہی ہے۔ عمران خان کے نزدیک نواز شریف کا ون پوائنٹ ایجنڈا اپنی دولت بچانا ہے، وہ دوسرے متحدہ بانی بن گئے ہیں اور پاک فوج کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ نواز شریف کبھی بھی جمہوری نہیں رہے ، انہیں جنرل جیلانی ، ضیاء الحق نے پالا ، منہ پر چوسنی لگا کر سیاستدان بنایا گیا۔ یہ پھل کے ٹوکرے ڈی سی کے کمرے کے باہر رشوت دیتے تھے۔ آج یہ سپر ڈیموکریٹ بن گئے ہیں، انہیں اپنے دور اقتدار میں سب سے مسئلے رہے۔ صدر غلام اسحاق خان ، جنرل جہانگیر کرامت ، جنرل آصف نواز، جنرل پرویز مشرف ، جنرل راحیل شریف اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی مسائل ہیں۔ نواز شریف کو علم ہے کہ پاکستانی فوج مکمل طور پر جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑی ہے۔ نواز شریف کے بارے میں حکومت کو بتایا گیا کہ انہیں باہر نہ بھیجا گیا تو وہ کسی وقت بھی مر جائینگے۔ عدالتوں نے کہا کہ انہیںکچھ ہو گیا تو حکومت ذمہ دار ہو گی ، جن عدالتوں سے ریلیف ملاوہ آج انہی پر حملے کررہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوںکی جانب سے گرما گرمی اقتدار کا کھیل ہے۔ اس کھیل میں ریاستی ادارے ہدف بن رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو سیاست کرنی ہے تو عوامی مسائل پر کریں۔ طرفین سے خیرسگالی کا کوئی اشارہ نہیںمل رہا تاہم حکومت سیاسی انتقام کے حق میں نہیں۔ قیام پاکستان سے ابتک چہرے ضرور تبدیل ہوئے ہیں لیکن مخالفت برائے مخالفت کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئی۔ محاذ آرائی کی روش ذاتیات تک پہنچ چکی ہے۔ مقدمہ بغاوت کے مدعی سے سرکار نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ دو سال سے این آر او نہ دینے اور بھرپور احتساب کے اعلان ہیں۔ دو سابق وزرائے اعظم، وزیراعظم آزاد کشمیر ، تین جرنیلوں ، ایک صحافی اور 43 سیاست دانوں پر بغاوت کا مقدمہ درج ہوا ہے۔ مقدمہ ریاست یا کسی ریاستی ادارے کی جانب سے نہیں بلکہ ایک شہری بدر رشید کی درخواست پر درج کیا گیا ہے۔ بغاوت کیس پر وفاقی کابینہ تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ شیریں مزاری کی نظر میں مقدمہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان کی نگاہ میں اپوزیشن چور ہے تاہم مقدمے کا اندراج غلط ہے۔ اگر غلط ہے تو اس کارروائی کی پشت پناہی کون کر رہا ہے؟ عام شہری کی شکایت پر تو معمولی چوری کا بھی مقدمہ درج نہیں ہوتا کجا کہ اہم شخصیات کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر لیا جائے۔ ریاست کیخلاف غداری کے مقدمات کے اندراج کیلئے متعلقہ اداروں سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ اسملک میں سویلین بالادستی کو سب تسلیم کرتے ہیں۔ آمریت کا دورانیہ 10 سال ،11 سال اور 9 سال رہا۔ صرف چند حکومتوں نے اپنی میعاد پوری کی۔ نیب کی مہربانی سے اپوزیشن جماعتوں کو یکجا ہونے کا موقع ملا۔ حکومت کے نزدیک غداری کے مقدمے غیر جمہوری رویہ ہے تو اسے ختم کر کے مزید آگے بڑھنے سے روکے۔ صدارتی ، آمرانہ، جمہوری پارلیمانی جماعت اور غیر جماعتی نظام کے مزے چکھ لئے ، اب کسی ایک پر تو استقامت اختیار کر لیں۔ گندم کی قیمت 2400 روپے من تک جا پہنچی ہے۔ گزشتہ سال گندم مہنگی ہوئی تو آٹے کا بحران پیدا ہوا۔ سادہ روٹی 6 سے 8 روپے اور خمیری روٹی اور سادہ نان 15 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ آٹے کی قیمت 100 روپے تک پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب میں دو کروڑ ٹن گندم پیدا ہوئی ، مزید گندم خریدنے کی نوبت کیوں آئی؟ سرکاری ملازمین نے اسلام آباد میں تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے پر مظاہرہ کیا۔ ان ملازمین نے پنشن کے خاتمے اور ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرنے کیخلاف سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا۔ صدر ایپکا کے نزدیک ہمارا مقابلہ بے بس حکومت سے نہیں ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے ہے۔ مظاہرہ میںملک بھر کے تمام 61 سول سرکاری اداروں اور محکموں کے ملازمین شریک ہوئے۔ آئی ایم ایف نے ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی انتقال کرنیوالے سرکاری ملازمین کی بیوائوں کوپنشن دینے کی حد پانچ سال کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے مختلف سرکاری اداروں میں سوا دو لاکھ کے قریب کنٹریکٹ بھرتیاں کی ہیں یعنی مستقبل میں سرکاری ملازمین کو پنشن اور انکریمنٹ سے محروم رکھنے کے فیصلے پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024