اتوار ‘ 13؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 13 ؍ اکتوبر 2019 ء
مذہبی کارڈ کا استعمال‘ اجمیر شریف کے گدی نشین سری نگر جائیں گے
اجمیر شریف تو کیا اس وقت اگر بھارت کے تمام نجیب الطرفین بھی جمع ہو جائیں۔ کشمیر جا کر وہاں کے عوام کو امن کے نام پر گمراہ کرنے اور بھارت کی حمایت پر واعظ دیں تو بھی کشمیری عوام ان تمام سرکاری لوٹوں کو یک بینی و دو گوش وادی سے باہر نکال دیں گے۔ ان عالیٰ مرتبت علما و مشائخ اور سجادہ نشینوں کو کشمیر سے زیادہ بھارت میں ان مسلمانوں کی فکر کرنی چاہیے جنہیں آئے روز جے شری رام نہ کہنے پر گائے کا گوشت رکھنے پر قتل کیا جاتا ہے‘ زندہ جلایا جاتا ہے۔ کشمیری ا زخود بھارت سے نمٹنا جانتے ہیں اور اب تک نمٹ بھی رہے ہیں۔
البتہ بھارت میں جو آئے روز مزارات اور مساجد شہید ہوتی ہیں۔ ان کی فکر بھارتی مسلمانوں کے علما مشائخ اور قامدین کو زیادہ ہونی چاہیے۔ خود سجادہ گان ذرا اجمیر پر ہی توجہ دیں جس کے ایئرپورٹ کا نام تک اجمیر یا خواجہ ایئرپورٹ کی بجائے راجہ بھوج انٹرنیشنل ایئرپورٹ رکھا گیا ہے۔ گویا اب اجمیر کو خواجہ کی نگری کی بجائے راج بھوج کی بستی بنایا جا رہا ہے۔
ان تمام مشائخ سے جو ظاہر ہے بھارتی حکومت کی گود میں بیٹھے ہیں‘ درخواست ہے کہ وہ کم از کم کشمیریوں کو بندے ماترم پڑھنے اور جے ہند کہنے کا درس دینے کی بجائے ذرا اپنی پیاری بھارت سرکار پر زور ڈالیں کہ وہ کشمیر میں کرفیو خترم کرے لاکھوں کی فوج واپس بلائے اور کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرے۔ پھر دیکھیں مودی حکومت اپنے ان پیاروں کو کسطرح گود سے اٹھا کر زمین پر پٹختی ہے۔ اسلئے یہ سجادہ گان علماو مشائخ کشمیر جانے سے پرہیز کریں ۔ویسے بھی کیا یہ وہاں خالی کرفیو زدہ سڑکوں اور بند دکانوں کو اپنا بھاشن دیں گے۔ اس وقت کشمیریوں کو انکے بھاشن سے زیادہ راشن کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭
پشاور بازار سے پرچم ہٹانے پر افغانستان قونصل خانہ احتجاجاً بند
اب کوئی افغانستان کے قونصلر سے پوچھے کہ بھائی اتنا غصہ کس بات پر یہ شہر پشاور ہے۔ جلال آباد، قندھار، غزنی یا کابل نہیں۔ کیا وہاں کسی دکان پر کبھی پاکستانی پرچم لہرانے کی اجازت ہے۔
اور تو اور یہ جو 30 لاکھ مہاجر افغانی تھے جنہوں نے 40 سال پاکستان میں مفت کی روٹیاں توڑیں کاروبار کیا تعلیم پائی یہ اگر احسان یاد رکھتے اور کم از کم اپنے گھر یا دکان پر بھی پاکستان پرچم لہرا کر اظہار محبت کرتے تو آج ہم بھی افغان قونصلر کی حمایت میں بولتے۔ مگر وہاں تو پاکستان مخالف مظاہروں میں اس مقدس پرچم کی توہین کی جاتی ہے جس کے سائے تلے ان افغان مہاجرین کی جان مال اور عزتیں محفوظ تھیں۔ اب یہ معاملہ عام ہے۔ کوئی انتظامیہ اپنے علاقے میں پبلک مفامات پر کسی غیر ملکی پرچم کو لگانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
اگر کسی کو شوق ہے تو گھر کے اندر لگائے۔ جناح پارک میں افغان مارکیٹ نام کی حد تک تو قابل قبول ہے کیونکہ ہمارے ہاں مسلم ممالک کے نام پر دکان یا مارکیٹیں بنانے کا رواج ہے بلکہ دوست ممالک کے نام پر بھی مثلا چائنہ مارکیٹ یا جرمن سٹور بھی رکھے جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی ملک کا جھنڈا وہاں نہیں لگا ہوتا۔ یہ افغان مارکیٹ اگر افغانوں نے غیر قانونی طور پر بنائی ہے یا قانونی طور پر پشاور والوں کی مارکیٹ ہے تو وہاں جھنڈا صرف پاکستان کا ہی لگ سکتا ہے۔ اسلئے افغان قونصلر غصہ تھوک دیں اور حقائق سے منہ نہ موڑیں۔ یا پھر افغانستان میں بھی پاکستان مارکیٹ اور جناح مارکیٹ کے نام رکھنے اور ان پر پاکستانی جھنڈا لہرانے کی اجازت دیں۔
٭٭٭٭٭
طالبات کو چست لباس نہیں پہننا چاہیے‘ لیکچرار آکسفورڈ یونیورسٹی
ایک برطانوی اخبار کے مطابق لیکچرر نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی طالبات کے لباس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبات تقریبات میں بے ہودہ لباس پہنتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبات کو چست لباس نہیں پہننا چاہیے۔ بیان پر طلباء اور اساتذہ نے غصے کا اظہار کیا ہے۔
یقین نہیں آتا کہ یہ خبر انتہائی جدید (انتہائی جدید سے مراد یہ ہے کہ جہاں لباس کو بھی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے) ملک برطانیہ کی ایڈوانس یونیورسٹی آکسفورڈ سے آئی ہے۔ لیکچرار موصوف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ طالبات تقریبات میں بے ہودہ لباس پہنتی ہیں۔ اس کامطلب ہے کہ ان معاشروں میں کوئی ایسا لباس بھی ہو سکتا ہے جسے ’’ہودہ‘‘ کہا جا سکے۔ لیکچرار کوئی اگلے زمانے کا شخص لگتا ہے یا کوئی خبطی۔ ممکن ہے وہ مشرقی خواتین سے متاثر ہو کر یہ بیان دے بیٹھا ہو۔ ورنہ اسے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی کیاضرورت تھی۔
جہاں کوئی لباس بے ہودہ نہیں‘ وہاں ’’ہودگی‘‘ کی توقع رکھنا حیران کن ہے۔ بہرحال اسے اپنی اس نصیحت کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ویسے یورپ و امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی کا سانپ پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ کیا مجال ہے جو کوئی کسی کے بارے میں بات کرنے سے کسی کو روک سکے۔
اس حساب سے تو پروفیسر نے جو کچھ کہا اس پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ جس طرح لباس ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد پہننے کی اجازت ہے تو کسی کے بولنے پر اتنا شوروغل کیوں یہ تو…؎
وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے
ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
والی بات ہے کسی کو بولنے کا حق ہے تو کسی کو بے ہودہ لباس پہننے کا حق حاصل ہے۔ دونوں کو کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ ہاں البتہ ناک بھوں چڑھانے کی اجازت دونوں کو ہے۔
٭٭٭٭٭٭