متشددّ رویے!
دوسرے پر پتھر وہ اٹھائے۔ جس کا اپنا دامن اجلا ہو۔ نہ جانے ہم اپنے گریبان میں منہ کیوں نہیں ڈالتے؟ اور سوچے کچھ بغیر دوسروں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ہم اس قدر متشددّ کیوں ہو گئے ہیں؟ خود ہی کوتوال خود ہی منصف اور خود ہی تارا مسیح کا رول اخیتار کیوں کر لیتے ہیں؟ اس نوعیت کے صریح قتل کی درجن بھر وارداتیں صرف چند مہینوں میں رپورٹ ہوئیں، اور قوم کے ذہن میں محفوظ ہیں۔ اس نوٹ کے پاگل پن کا نشانہ بننے والوں پر بالعموم چوری کا الزام لگتا ہے۔ اور پھر جنوبی مجمع انہیں مار مار کر ہلاک کر دیتا ہے۔ منظر نامہ کم و بیش ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ لوہا گرم ہونے صرف پہلے پتھر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب وہ چل گیا، تو بعد میں آنے والے تو کوئی سوال نہیں کرتے! کارخیر میں حصہ لیکر اپنے حصے کی نیکیاں کمانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ ہمارے لوگوں میں زہر کس نے بھر دیا؟ ہماری برداشت کو کیا ہوا؟ پھر بلا تحقیق شریک جرم ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ کوئی نفسیاتی مرض ہے یا پھر روایتی نظام عدل کے خلاف بغاوت؟ یہ جو بھی ہے شرمناک ہے کیونکہ مہذب معاشرہ اس بربریت کی اجازت نہیں دیتا‘ دین اسلام کا تو زیادہ تر زور ہی تحمل، بربادی، برداشت اور عفوودرگزر پر ہے۔