چائے پی جیئے ،کون سی
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران اہل وطن نے ستاون ارب روپے سے زیادہ مالیت کی امپورٹیڈ چائے پی اور رواں مالی سال کے دوران اس رقم میں اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا ۔ جس انداز سے اس خبر کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، اس سے یہ واضح نہیں ہُوا کہ خبر نگار نے اہلِ وطن کی شاہ خرچی کا ذکر کیا ہے یا قوم کی عیاشی کا احاطہ کیا ہے۔ ہر روز صبح اور شام چائے پینا ہماری عادت بن چکی ہے۔ ایک دَور تھا ، جب انگریز نے برصغیر تجارت کرنے کی غرض سے قدم رکھا تھا تو لوگوں کو چائے سے متعارف کرایا تھا۔ اُس وقت لوگوں کو بازاروں اور گلیوں میں چائے مفت پیش کی جاتی تھی ۔ خوبصورت پیالیوں میں چائے ہُوا کرتی تھی اور ساتھ ہی پلیٹ میں میٹھے اور نمکین ِبسکٹ بھی رکھے ہوتے تھے حالت یہ تھی کہ اُس وقت لوگ چائے کی اس مفت پیشکش کو قبول کرتے ہوئے قدرے ہچکچاہٹ کا اظہار کیاکرتے تھے ۔ انگریز میزبانوں کے اصرا ر پر لوگ چائے پینے پر تیار ہوتے تھے ۔ پھر یہ ہُوا کہ لوگوں میں چائے کے پیکٹ بھی مفت تقسیم ہونے لگے تا کہ لوگ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گھروں اور دکانوں میں چائے تیار کر کے لطف اندوز ہوسکیں ۔ یہ شوق جب عام ہُوا تو انگریز تاجروں نے چائے کی قیمت وصول کرنا شروع کر دی اور یوں برصغیر میں چائے پینے کا سلسلہ شروع ہُوا او ر آہستہ آہستہ ہندوستانی لوگ چائے کے عادی ہو گئے ۔ صبح ناشتے میں چائے شامل ہو گئی ۔ پھر شام کے وقت ہی نہیں، رات کو سوتے وقت بھی چائے کا شوق پورا ہونے لگا ۔ اس کے بعد مہمانوں اور اپنے پیاروں کی خاطر تواضع کے لئے چائے تیار کر کے پیش کی جانے لگی۔
چائے کی تاریخ کاجائزہ لیاجائے تو انگریزوں کے اس تحفے کی ابتداء تو انگلستان سے ہوئی کہ وہاں سے بحری جہازوں میں دیگر کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ چائے کی پیٹیاں بھی ہندوستان آیا کرتی تھی ۔ چائے سے لوگوں کی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ وافر مقدار میں چائے گھروں ، دفاتر اور دکانوں میں خاص طور پر رکھی جاتی تھی ۔ پھر مختلف برانڈز کی چائے کا رواج بھی شروع ہُوا۔ عام طور پر سری لنکا کے باغات سے آنے والی چائے کی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی مسحور کُن خوشبو کا ذکر جب بڑے بوڑھے آج بھی کرتے ہیں یا چائے کے حوالے سے لکھی گئی تحریروں کو پڑھنے کا موقع ملتا ہے تو ایک بار چائے کا ذائقہ اور خوشبو عجیب لطف دیتا ہے ۔ پھر یوںہُوا کہ چائے کے ساتھ کافی پینے والوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔موسم ِسرما میں کافی کی ڈیمانڈ بڑھ گئی ۔ اصل گمبھیر مسئلہ اس وقت سامنے آیا جب مختلف ذائقے دار چائے کو متعارف کروایا گیا یعنی کیمیکل کے استعمال سے چائے کی خوشبو اور ذائقے تبدیل کر کے لوگوں میں پیش کیے جانے لگا۔ انگریز تاجروں کا یہ تحفہ تو ہندوستان کے لوگوں میں مقبول رہا لیکن اجارہ داری کے معاملے میں انگریز پیچھے رہ گیا ۔ مختلف خِطّوں اور ملکوں کے تاجر اپنی اپنی پیشکش اور رحجانات کے حوالے سے چھا گئے ۔ چائے کی کوالٹی ذائقے اور اقسام کی وجہ سے اس شوق میں اکیسویں صدی میں کوئی کمی نہ آسکی ۔ پاکستان اور بھارت میں چائے کے کردار اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تشہیری مہم میں دیگر اشیاء کے ساتھ چائے کی تشہیر ٹاپ پر ہوتی ہے۔ میڈیا میں چائے کی تشہیرپیش پیش ہوتی ہے ۔
اگر بات کیمیکلز کے استعمال تک محدود رہتی تو ٹھیک بات تھی، سنگین صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ جعلی اور دو نمبر چائے کی پتی مارکیٹ میں تیزی سے پھیل چکی ہے۔ کم قیمت کے رحجان کی وجہ سے یار لوگوں نے چائے کے شوقین افراد کامسئلہ تو حل کر دیا لیکن صحت عامہ کے مسائل میں اضافہ ہو گیاہے۔المیہ یہ ہے کہ ان مسائل کی سنگینی بڑھتی جا رہی ہے۔ پیلے کالے چنے کے چھلکوں اور ایسے ہی دیگر طریقوں سے چائے بننے لگی ، پھر یہ ہُوا کہ چمڑے سے چائے کا بُرادہ تیار ہونے لگا۔ ظاہر ہے اس ’’چائے‘‘کو پینے سے پیٹ اور گلے کی بیماریاں ،ایسی چائے پینے والوں کی زندگی کواجیرن بنائیں گی۔ ویسے بھی ہمارا معاشرہ جعلی اور دو نمبر اشیاء کی تیاری میں بہت آگے ہے۔ آپ جعلی دودھ کی تیاری اور دہی کی فروخت سے اندازہ لگا لیجئے۔ لوگوں کی زندگی کوہر وقت خطرہ در پیش رہنے لگا ہے کہ آپ لاکھ احتیاط کرلیں ، زیادہ رقم خرچ کر کے دودھ اور دہی حاصل کریں لیکن دھڑکالگا رہتا ہے کہ جعلی اور دو نمبر تو نہیں۔ خاص طور پر بچوں کی صحت اور زندگی دائو پر لگی رہتی ہے۔ بیشتر غریب والدین مجبوری کے عالم میں جعلی اور دو نمبر دودھ استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح چائے کی پتی کا حال ہے ۔ستاون ارب سے زائد مالیت کی چائے زر مبادلہ کے ذخائر پربوجھ کے حوالے سے اہمیت کی حامل بات ہے لیکن آپ کو اندازہ ہے کہ پاکستان میں کم قیمت والی چائے جتنی مقدار میں تیار ہو کر فروخت ہوتی ہے اس کا بجٹ کتنا ہے۔ ایک واقف حال نے بتایا ہے کہ کیمیکلز اور دیگر طریقوں سے تیار ہو کر فروخت ہونے والی چائے کی مالیت امپورٹیڈ چائے (ستاون ارب ڈالر)سے دو گنا ہے۔ اب خود اندازہ لگا لیں کہ ہم کہاںکھڑے ہیں ۔