اولاد اللہ پاک کی طرف سے انمول تحفہ بھی ہے اورآزمائش بھی، آپکے بچوں کی مْسکان ، ان کے قہقہے انکی شوخیاں ، انکی کامیابی آپکو پَل پَل زندگی بخشتی ہے ، آپکے بچوں کی سانسوں کی ڈور سے آپکی سانسیں بندھی ہیں ، انکی دھڑکن ہی سے آپکا دل چلتا ہے لیکن بچوں کی ذرا سی تکلیف پر آپ تڑپ بھی جاتے ہو۔اپنے بیٹے سلمان طارق کے ایکسیڈنٹ کی خبر کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ اپنے جگر گوشے کو خون میں لت پت دیکھنا رگوں سے کیسے کیسے جان کھینچتا ہے کوئی مجھ سے پوچھے ! اس پرستم یہ کہ اردگرد کے لوگ زخمی کی چیخ و پکار پر بھی محوِ تماشہ رہیں ؟ کون کہتا ہے کہ بچے سانجھے ہوا کرتے ہیں ،اب تو ایسی بے حسی کہ زخمی کو فوری طبی امداد دینے کے بجائے لوگ وڈیوز بنانا شروع کردیتے ہیں، اللہ جانے آئے دن آگ اور خون کی ہولی نے دل اس قدر پتھر کردئے ہیں کہ بہتے خون اور پانی میں کوئی فرق ہی نہیں رہا! میں اْن لمحات سے نکل ہی نہیں پاتی جب سی ایم ایچ میں سلمان کو آپریشن تھیٹر لے جاتے ہوئے میں سٹریچر کے ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھی ، قربان جاؤں اپنے بیٹے کے کہ اس قدرشدید تکلیف کے عالم میں بھی اسے ماں ہی کی فکر تھی…با آواز ِ بلند… " اللہ جی میں نے تو اپنی ماں کو پھولوں کی سیج پر بٹھانا ہے ، اور میری ماں میرے پیچھے بھاگ رہی ہے ؟کبھی میرے آنسو صاف کرتا تو کبھی مجھے تسلیاں دیتا۔ مجھے ممتاز شیخ صاحب کے لفظ نہیں بھولتے " ناز تمہارا بیٹا شیر ہے ، تم خوش قسمت ماں ہو "۔
کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کا رویہ مریض کے ساتھ اتنا ہمدردانہ ہونا چاہئے جس سے مریض کی آدھی تکلیف رفع ہو جائے ، ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے جس کا نرم لہجہ مریض کے لئے تسلی و تشفی کا باعث بنتا ہے ، لیکن یہاں معاملہ اْلٹ تھا ،سرجری سے پہلے سلمان کا ڈاکٹر سے سوال کرنا اْس کا حق تھا " کیا میں پہلے کی طرح بھاگ سکوں گا ؟ سوئمنگ کر سکوں گا ؟ ہارس رائیڈنگ کرسکوں گا ؟ لیکن ڈاکٹر کا تُند لہجے میں جواب " اگر مجھے یہ سب پتہ ہوتا تو میں کہیں بیٹھا پیری فقیری کر رہا ہوتا یہاں ڈاکٹر نہ ہوتا " سی ایم ایچ اچھا ہاسپٹل ہے ، ٹریٹمنٹ بھی بہترین ہے ،ہم پاک فوج سے والہانہ محبت بھی کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر کے ایسے روئیے سے خاصی تکلیف پہنچی ، وہ ڈاکٹر ہیڈ آف آرتھو سرجری بھی تھے ، خیر انہوں نے سلمان کے دونوں آپریشنز جدید طریقہ کار کے تحت کئے ، اللہ ان کی زبان میں تھوڑی سی حلاوت بھی عطا کرے۔ آٹھویں دن سی ایم ایچ والوں نے ڈسچارج کردیا کہ ہمارے پاس " سویلینز" کے لئے کمرے نہیں ہیں حالانکہ سویلینز علاج کے لئے اچھی خاصی ادائیگی کرتے ہیں پھر بھی ؟؟
سلمان کی ٹانگ پر زخم چونکہ بہت گہرا تھا سو اِک عزیز دوست کی وساطت سے پوسٹ کئیر کے لئے بر لب ِ نہر ایک سرکاری اسپتال میں وی وی آئی پی روم مل گیا اور پروٹوکول بھی ٹھیک ٹھاک ! بہت سے عزیز دوست سلمان کی عیادت کو آتے رہے… خاص طور پر شعیب بن عزیز سی ایم ایچ میں بھی مصطفیٰ کمال پاشا کے ساتھ آئے اور اس سرکاری اسپتال میں بھی نہ صرف آتے رہے بلکہ پل پل کی خبربھی رکھی۔ ۔ڈاکٹر اجمل خان نیازی کئی بار سلمان کو دیکھنے آئے،میرے بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں ، صدیق الفاروق ، اطہر علی خان ، ایوب خاور، ملتان سے معروف شاعر قمر رضا شہزاد اپنی مسز کے ساتھ ، حمیدہ شاہین آپی ، اسلام آباد سے لوح کے مدیر ِ اعلیٰ ممتاز شیخ صاحب ، سعید آسی، عامر بن علی ، وسیم عباس ، فاخرہ انجم اور بھی کئی دوست اسپتال آئے اور حوصلہ دیتے رہے۔ نوشی گیلانی ، جنید آزر ،سمیت بے شمار دوست جو اسپتال نہ آسکے فون پر رابطہ رکھا ،فکر مند رہے ،دعائوں سے نوازتے رہے ،کسی سرکاری اسپتال جانے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا ۔ہمارے اس وی وی آئی پی روم تک تو سب اچھا تھا تصاویر بننے سے پل پل کی رپورٹنگ اورعلاج تک اچھا خاصہ پروٹوکول لیکن اِس روم سے باہردنیا ہی کچھ اور تھی … ارد گرد پرائیویٹ رومز تھے… جن کی حالت ِزاردیکھ کر دماغ چکرا جاتا تھا ، تعفن زدہ کمرے، بوسیدہ پردے، جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا پلستر ، چھت اور دیواروں پر ہر طرف فنگس… مریضوں اور ان کے لواحقین پر ترس آتا تھا جو شدید گرمی اور حبس کے عالم میں راہداریوں میں گھنٹوں کے حساب سے پڑے کراہتے رہتے۔ مریضوں کی اذیت کا تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ چار منزلہ اس اسپتال میں چھ آٹھ لفٹس تو یقینی طور پر ہیں ، شدید رش کے باوجود چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک لفٹ چلتی تھی ، اور پرائیوٹ رومز کے سامنے والی لفٹ کا یہ حال کہ اکثر نیچے سے اوپر ، پھر اوپر سے نیچے جھولتے رہو۔لیکن دروازہ نہیں کھلتا تھا گرمی اور حبس سے قبر کی سی وحشت کا تصور آتا۔ عید والے دن کسی پرائیویٹ روم کی مخدوش دیواروں میں کرنٹ بھی آگیا ، میڈیسن کے لئے عملے کی طرف رازدارانہ انداز میں مشورہ ملتا کہ ہاسپٹل کے اندر سے خریدنے کے بجائے باہر سے خریدیں یعنی اسپتال کے اندرجعلی دوائیوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔
حکومت کواس طرف بھی لازمی توجہ دینی چاہئے ، سڑکوں اور پْلوں کی تعمیر،اورنج ٹرین کا منصوبہ اپنی جگہ لیکن عوام کو علاج و معالجہ کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے اس کے علاوہ سرکاری اسپتالوں میں عملہ کی اخلاقی تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہے۔پروفیسر تحسین ریاض ہیڈ آف آرتھو سرجری ہیں سلمان ان ہی کے زیرِ علاج رہا خاصی محبت فرماتے رہے اور خاص طور ذکر کرنا چاہوں گی پر آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر رضوان علی کا، جنہوں نے اس محبت اور ڈیڈیکشن سے سلمان کا علاج کیا کہ ایک ڈاکٹر اور مسیحا کا فرق با آسانی سمجھ آگیا ، نہ رہ سکی تو اک دن کہہ دیا "آپ بہترین ماں کی بہترین تربیت ہو" کاش ڈاکٹر رضوان سا مسیحا ہراسپتال، ہر کلینک میں موجود ہو۔قربان جاؤں اپنے اللہ کے جس نے ساڑھے چار ماہ کی کڑی آزمائش سے نکال کر خوشیاں دکھائیں۔ دوستوں کی بیش قیمت دعاؤں کے صدقے اللہ رحیم و کریم نے میرے لخت ِ جگر کو نئی زندگی سے نوازا۔ انیس ستمبر 2017کو اپنے چند قریبی چنیدہ دوستوں کوہاسپٹیلیٹی اِن میں عشائیے پر مدعو کر کے اپنے شہزادے سلمان طارق کے جشن ِ صحت کا اہتمام کیا۔ محفل کیوں نہ سجتی کہ میرے یہ تمام عزیز دوست خود اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ جناب اجمل خان نیازی ، شعیب بن عزیز ، صدیق الفاروق، خالد شریف صاحب ، قمر رضا شہزاد ،عزیزدوست ڈاکٹر صغرا صدف ، حمیدہ شاہین آپی ، ایوب خاور ، سعید آسی صاحب ، وسیم عباس ، ڈاکٹر رضوان علی۔ کمی تھی تو امجد اسلام امجد صاحب اور اپنی دوست فرحت پروین کی کہ دونوں ہی ملک سے باہر تھے۔ ممتاز شیخ صاحب تقریب میں اپنی مصروفیات کے سبب نہ آسکے لیکن تالیوں کی گونج میں ان ہی کا بھیجا ہوا کیک کاٹ کر تقریب کا آغاز کیا گیا۔ قمر رضا شہزاد اور ڈاکٹر اجمل نیازی کی سالگرہ کا کیک بھی کچھ شرارتوں اور محبتوں میں کاٹا گیا سلمان کی خوشی دیدنی تھی ،کہ تمام معزز مہمانوں کی طرف سے گلہائے محبت کے ساتھ ساتھ بے شمار تحائف سے بھی اُسے مل رہے تھے ۔ خوش گپیاں ، محبتیں ، بے پایاں خلوص ، شعر و شاعری ، دعائیں سب کچھ ہی تو تھا محفل میں !
رگوں میں جیسے زندگی کی لہراک بار پھر سے لوٹ آئی ۔
مُدتوں بعد میرے آنگن میں
آج اُترا ہے چودہویں کا چاند