موجودہ قومی منظرنامہ کے حوالہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کا حل تلاش کرنے کیلئے ہر درد دل رکھنے والا شہری حقیقی معنوں میں پورے خلوص کے ساتھ پریشان اور سرگرداں ہے۔ ہر ایک کے لب پر یہ سوال ہے ”آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟“۔ ایک طرف حکمران جماعت نے ایک ایسا غیر فطری اور مصنوعی محض گٹھ جوڑ پر مبنی اتحاد وقتی طور پر تشکیل دے رکھا ہے جسے اگر بہان پتی کا کنبہ وقتی طور پر جوڑ رکھنے کا نام دیا جائے تو شاید زیادہ موزوں ہو گا۔
تاریخ کے اس نازک دور میں جبکہ حکمران طبقہ کی نظریں مارچ2012ءکے سینٹ انتخابات پر اٹکی ہوئی ہیں تاکہ اس کے بعد حکومت سینٹ الیکشن کی کامیابی کے چشمہ کے سراب سے وہ لافانی خمار حاصل کر سکیں جو ان کے دورِ حکومت کو اگلے انتخابات اور پھر اس سے بھی اگلے انتخابات میں کامیابی کا ابدی تحفہ پیش کر سکے اس کے برعکس حزب اختلاف نے تہیہ کر رکھاہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں کو ایسا جادو بھرا خواب دیکھنے کی بھی لذت سے محروم رکھنے کیلئے اپنے تمام وسائل جن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا حربہ بھی شامل ہے گریز نہیں کریں گے۔ اگر قارئین تازہ ترین خبروں کا بغور جائزہ لیں تو اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی بلکہ طبلِ جنگ پنجاب کی راج دھانی سے بج چکا ہے۔ کہ وفاقی حکومت اپنا رخت سفر باندھنے کی تیاری کرے۔ ورنہ عوام کا Billion مارچ جو Trillion کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ حقیقت کیا ہے یہ صرف وقت ہی بتائے گا کہ متحارب گروہوں کے ترکش میں کتنے تیر میدان کارزار کا بوسہ لینے کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ دونوں متحارب گروہوں کی پشت پناہی پر اندرون ملک اور بیرون ملک کون سی طاقتیں سرگرم عمل ہیں۔ ان میں اپنے ہمسایہ ممالک کے علاوہ مشرق اور مغرب کی بڑی طاقتیں بھی اپنے اپنے سٹرٹیجک مفاد کے حصول کیلئے پاکستان کو Do more کی تلقین کرنے کیلئے بضد ہیں۔ اس پس منظر میں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک ایسے بحرانی لمحہ کے موقع پر بھی پاکستان کی قیادت ایک جامع اور بر محل ایجنڈا ریاست کی قومی سلامتی پر مرکوز ایجنڈا تیار کرنے پر ابھی تک اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے دو ہفتے قبل وزیر اعظم نے اسلام آباد میں ملک کی چھوٹی بڑی 58 جماعتوں کے قائدین پر مشتمل قومی کانفرنس طلب کی تھی۔ 9 گھنٹے کے طویل بحث و مباحثہ کے بعد 13 پوائنٹ پر مشتمل اعلان ایک متفقہ مژدہ کی صورت میں قوم کو پیش کیا گیا۔ لیکن ابھی اس ”تاریخی“ اعلان کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی تھی کہ انتشار کے اژدھا نے اس اعلان اسلام آباد کا وہی حشر کیا جس کا کڑوا پھل میثاق جمہوریت کی صورت میں قوم کچھ عرصہ پہلے چکھ چکی ہے۔ بغیر کسی تفصیل میں جائے آنے والے طوفان کے سیاہ بادل نہایت تیزی کے ساتھ پاکستان کے افق پر چھا رہے ہیں ۔ شاید پردہ غائب سے باہمی مفاہمت کی کسی خوشگوار نسیم بہار کے جھونکے غولوں میں رنگ بھرے باد نو بہار کی صورت اختیار کر لیں لیکن اس کے لئے دس بارہ ایجنڈے کی بجائے صرف ایک پوائنٹ ایجنڈا پر ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کا فی الوقت مرکوز ہونا ناگریز ہے اور یہ ون پوائنٹ ایجنڈا صرف اور صرف قومی سلامتی خود مختاری اور ملک کی Soveriegnty پر باقی تمام اختلافی امور کو عارضی طور پر بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی ایک نقطہ پر پوری قوم کا متحد ہو جانا دشمن کی ناکامی اور پاکستان کی کامیابی کی نوید بن سکتا ہے۔ اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے سب سے بڑی قربانی تمام سیاسی پارٹیوں میں خاندانی وراثت کی ہوس کو ترک کر کے مڈل کلاس کی نئی قیادت کو سامنے لانے کا نیا تجربہ کرنا ہو گا۔ تاکہ پرانی قیادت پر امن طریقے سے نوجوان نئی قیادت کیلئے خوش دلی سے راہ ہموار کرے۔ قوموں کی زندگی میں جدید دور کے نئے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا نہایت مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن اس کیلئے عہد کہن کی رسوم و قیود سے آزاد ہوئے بغیر نئی صدی کی نئی صبح کا آغاز ممکن نہیں ہے۔
عہد کہن پہ اڑنا آئین نو سے ڈرنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تاریخ کے اس نازک دور میں جبکہ حکمران طبقہ کی نظریں مارچ2012ءکے سینٹ انتخابات پر اٹکی ہوئی ہیں تاکہ اس کے بعد حکومت سینٹ الیکشن کی کامیابی کے چشمہ کے سراب سے وہ لافانی خمار حاصل کر سکیں جو ان کے دورِ حکومت کو اگلے انتخابات اور پھر اس سے بھی اگلے انتخابات میں کامیابی کا ابدی تحفہ پیش کر سکے اس کے برعکس حزب اختلاف نے تہیہ کر رکھاہے کہ وہ موجودہ حکمرانوں کو ایسا جادو بھرا خواب دیکھنے کی بھی لذت سے محروم رکھنے کیلئے اپنے تمام وسائل جن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا حربہ بھی شامل ہے گریز نہیں کریں گے۔ اگر قارئین تازہ ترین خبروں کا بغور جائزہ لیں تو اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں رہی بلکہ طبلِ جنگ پنجاب کی راج دھانی سے بج چکا ہے۔ کہ وفاقی حکومت اپنا رخت سفر باندھنے کی تیاری کرے۔ ورنہ عوام کا Billion مارچ جو Trillion کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ حقیقت کیا ہے یہ صرف وقت ہی بتائے گا کہ متحارب گروہوں کے ترکش میں کتنے تیر میدان کارزار کا بوسہ لینے کیلئے تڑپ رہے ہیں۔ مقطع میں سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ دونوں متحارب گروہوں کی پشت پناہی پر اندرون ملک اور بیرون ملک کون سی طاقتیں سرگرم عمل ہیں۔ ان میں اپنے ہمسایہ ممالک کے علاوہ مشرق اور مغرب کی بڑی طاقتیں بھی اپنے اپنے سٹرٹیجک مفاد کے حصول کیلئے پاکستان کو Do more کی تلقین کرنے کیلئے بضد ہیں۔ اس پس منظر میں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ ایک ایسے بحرانی لمحہ کے موقع پر بھی پاکستان کی قیادت ایک جامع اور بر محل ایجنڈا ریاست کی قومی سلامتی پر مرکوز ایجنڈا تیار کرنے پر ابھی تک اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے دو ہفتے قبل وزیر اعظم نے اسلام آباد میں ملک کی چھوٹی بڑی 58 جماعتوں کے قائدین پر مشتمل قومی کانفرنس طلب کی تھی۔ 9 گھنٹے کے طویل بحث و مباحثہ کے بعد 13 پوائنٹ پر مشتمل اعلان ایک متفقہ مژدہ کی صورت میں قوم کو پیش کیا گیا۔ لیکن ابھی اس ”تاریخی“ اعلان کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی تھی کہ انتشار کے اژدھا نے اس اعلان اسلام آباد کا وہی حشر کیا جس کا کڑوا پھل میثاق جمہوریت کی صورت میں قوم کچھ عرصہ پہلے چکھ چکی ہے۔ بغیر کسی تفصیل میں جائے آنے والے طوفان کے سیاہ بادل نہایت تیزی کے ساتھ پاکستان کے افق پر چھا رہے ہیں ۔ شاید پردہ غائب سے باہمی مفاہمت کی کسی خوشگوار نسیم بہار کے جھونکے غولوں میں رنگ بھرے باد نو بہار کی صورت اختیار کر لیں لیکن اس کے لئے دس بارہ ایجنڈے کی بجائے صرف ایک پوائنٹ ایجنڈا پر ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کا فی الوقت مرکوز ہونا ناگریز ہے اور یہ ون پوائنٹ ایجنڈا صرف اور صرف قومی سلامتی خود مختاری اور ملک کی Soveriegnty پر باقی تمام اختلافی امور کو عارضی طور پر بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی ایک نقطہ پر پوری قوم کا متحد ہو جانا دشمن کی ناکامی اور پاکستان کی کامیابی کی نوید بن سکتا ہے۔ اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے سب سے بڑی قربانی تمام سیاسی پارٹیوں میں خاندانی وراثت کی ہوس کو ترک کر کے مڈل کلاس کی نئی قیادت کو سامنے لانے کا نیا تجربہ کرنا ہو گا۔ تاکہ پرانی قیادت پر امن طریقے سے نوجوان نئی قیادت کیلئے خوش دلی سے راہ ہموار کرے۔ قوموں کی زندگی میں جدید دور کے نئے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا نہایت مشکل مرحلہ ہے۔ لیکن اس کیلئے عہد کہن کی رسوم و قیود سے آزاد ہوئے بغیر نئی صدی کی نئی صبح کا آغاز ممکن نہیں ہے۔
عہد کہن پہ اڑنا آئین نو سے ڈرنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں