’’جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں‘‘ جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں آدمی بے نظیر ہوتے ہیں
میں ساٹھ کراس کر چکا ہوں۔ زندگی کا کوئی پتا نہیں اللہ کریم سے دعا ہے کہ باقی ماندہ عمر صحت، تندرسی اور وسائل کے ساتھ گزرے اور زندگی کی آخری سانس تک کسی بھی لحاظ سے رب تعالیٰ کسی کا محتاج نہ کرے۔ خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اللہ کی مخلوق کی جس انداز میں بھی ممکن ہو خدمت ہو سکے۔ ہمارے حلقہ احباب میں 31 سالہ نوجوان لڑکے کو ایک حادثہ کے بعد مختلف سرکاری اور بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں میں دھکے کھانے اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے خوار ہونے کے بعد جی ایٹ فور اسلام آباد کیسپتال لے کر جایا گیا جہاں تمام تر کوششوں کے باوجود اس بیچارے کی ٹانگیں کاٹ دی گئیں۔ اخراجات بہرحال ہوتے ہی ہیں۔ مگر مشاہدہ سے معلوم چلا کہ ہسپتال کے مالک سینٹ کے معزز رکن ہونے کے باوجود بہت درویش ہیں، پلاسٹک سرجری میں ان کا بین الاقوامی طور پر بہت بڑا نام ہے۔ ہسپتال کے ایم ڈی ذوالفقار حسین بھی متحرک، ملنسار اور بڑا خیال رکھنے والی عمدہ شخصیت ہیں۔ اگر ایسی شخصیات ہسپتالوں میں موجود ہوں تو انسان آدھی بیماری تو ویسے ہی بھول جاتا ہے ا ور پھر ڈاکٹرز اور نچلے سٹاف پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں گزشتہ 40 سال سے بابوں، درویشوں اور فقیروں کی تلاش میں سرگرداں ہوں لیکن پچھلے ایک ہفتہ کے دوران دو ایسے ’’فرشتوں‘‘ سے ملاقات ہوئی جو گدی نشین ہیں اور نہ ہی کوئی پیر صاحب، وڈیرے ہیں نہ جاگیردار، شیخ الاسلام ہیں نہ ہی عالم دین، زیادہ حج اور عمرے بھی نہیں کر رکھے، ماہانہ روحانی محافل بھی شاید نہیں کراتے مگر بہت عمدہ
’انسان‘‘ ہوتا وہی ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے۔ کچھ وقت تو بہرحال لگے گا مگر پورا اعتماد اور بھروسہ ہے کہ مریض انشاء اللہ اپنی نارمل لائف میں جلد واپس آ جائے گا۔ 1970ء تک مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان اکٹھے تھے پھر حالات کا رخ اس تیزی سے بدلا کہ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ شروع کے کچھ ابتدائی سال مشکلات ضرور رہیں۔ مگر ہم سے عمر میں تقریباً 24 سال چھوٹا ہونے کے باوجود جی ڈی پی، ترقی اور اداروں کی مضبوطی کے لحاظ سے ہم سے آگے نکل چکا ہے اس کی بہت ساری وجوہات ہوں گی مگر سب سے اہم وجہ جو بظاہر سمجھ آتی ہے وہ انصاف کی فراہمی ہے ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ڈھاکہ کی ایک عدالت نے اپنے سابق چیف جسٹس سریندر کمار سنہا کو منی لانڈرنگ اور مالی خورد برد کے الزامات میں 11 برس قید کی سزا سنا دی۔ گو وہ ملک سے باہر ہیں، معلوم نہیں آگے کیا ہوتا ہے لیکن یہ ایک بڑی خبر ہے کہ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ مگر جب اس حوالے سے اپنے ملک میں دیکھتا ہوں تو شاید سر فخر سے بلند نہیںہوتا۔ ایک جسٹس کی آڈیوز پکڑی گئیں کہ جس کے تحت انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سزائیں دی تھیں۔ بہرحال تمام شواہد پیش ہونے کے بعد عدالتِ عظمی نے انہیں نوکری سے ہٹا دیا۔ کیا کہنا ہماری وکلاء برادری کا کہ انہوں نے ملک قیوم کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر بنا دیا۔ یہ ہے معیار؟ ۔ سپریم کورٹ ہماری سب سے اعلیٰ عدالت ہے عام شہری جب جب ان عمارات کے سامنے سے گزرتا ہے تو سر تعظیم سے جھکا لیتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں ایک ایسی سیاسی حکومت بھی رہی کہ جنہوں نے پنجاب بھر سے اپنے ’’جھتے‘‘ منگوا کر اسلام آباد میں اس کی بلڈنگ پر حملہ کروا دیا۔ کاش ایسے تمام مواقع پر اعلیٰ عدلیہ نوٹس لے کر قانونی کاروائی کر کے ایسی مثال بناتی کہ جس کو آئندہ کے لیے ایک سبق بنا کر پیش کیا جا سکتا مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ ہمارے ایک سابق فاضل چیف جسٹس نے ایک ہسپتال میں چھاپا مارا اور ’’ مشروب مغرب‘‘ کا دیدار کیا۔ انصاف کا جنازہ تو اسی دن اس ملک سے نکل گیا تھا کہ جب وہ شہد بن گیا۔ ہمارے ایک اور سابق چیف جسٹس کہ جن کو بحال کروانے کے لیے اس قوم نے جانیں دیں۔ زخمی ہوئے بحال ہونے کے بعد عدلیہ کا رخ اس انداز میں یکسر بدلا ہی دیا کہ انصاف کا حصول مشکل سے مشکل تر ہو گیا وہ دن بھر ٹی وی سکرینوں پر اپنے نام سے چلنے والی خبروں کے ٹکرز دیکھنے کی خواہش میں از خود نوٹس ہی لیتے رہے۔
ذاتی تشہیر کے حوالے سے سب کچھ ہوا، اگر نہیں ہوا تو انصاف نہ ہوا۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنی حکومتوں کے درمیان فوجی عدالتیں قائم کروائیں کیونکہ انہیں جلد اور معیاری انصاف دستیاب نہیں ہو رہا تھا۔ جب ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی تو معمول کی عام عدالتیں دہشت گردوں کو ضمانتوں پر رہا کر دیتی تھیں یا ان کے مقدمات ہی ختم ہو جاتے تھے۔ انصاف کا عالم یہ ہے کہ ایک شخص کو اقامہ پر سزا سنا دی جاتی ہے تو دیگر کئی اقامہ رکھنے والی سیاسی شخصیات کی کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔ کراچی میں تجاوزات کی بنیاد پر ختم کی جانے والی بلڈنگز کے لیے بھی امتیازی سلوک ہے ۔ مگر وہاں اپنے ہی فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ ایسے فاضل ججز بھی موجود ہیں کہ جن پر من لانڈرنگ کے الزامات ہیں، تسلیم کہ کچھ لوگوں کی نظر میں یہ ملک گٹر ہے مگر الحمدللہ یہ ہمارا بڑا پیارا وطن ہے کہ جس کی وجہ سے ہم آزاد، خود مختار اور باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف کلین چٹ! ایسے حالات میں ہم بنگلہ دیش کی اس لوئر کورٹ کے جج کو سلام پیش کرتے ہیں کہ جس نے اپنے سابقہ چیف جسٹس کو سزا تو سنائی آگے کیا ہوتا ہے آنے والا وقت بتائے گا۔