جمعۃ المبارک‘ 26 ؍ ربیع الاول 1442ھ‘ 13؍ نومبر 2020ء
پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے علامہ اقبال کے یوم ولادت کا کیک کاٹا
اقبال بے شک مفکر پاکستان ہیں‘ پاکستان کے قومی شاعر ہیں مگر اس کے ساتھ وہ عالم اسلام کے بھی ایک بڑے دانشور ، مفکر حدی خواں اور درد دل رکھنے والے شاعر بھی ہیں۔ ان کی ساری شاعری اسلام اور قرآن کے گرد گھومتی ہے۔ اقبال کی شاعری کا بڑا اور اہم حصہ فارسی میں ہے۔ انکے دور میں یہ برصغیر کی اہم ثقافتی اور تعلیمی زبان کا درجہ رکھتی تھی کیونکہ مغل دور میں اسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا۔ بعدازاں بھی علمی‘ ادبی اور تعلیمی میدان میں فارسی چھائی ہوئی تھی۔ اس لئے علامہ اقبال کی شاعری کا اہم حصہ اور فکر وعلم کا بڑا ذخیرہ فارسی زبان میں محفوظ ہے جس پر دنیا بھر کے صاحبان علم و فن کام کر رہے ہیں۔ اعلیٰ درسگاہوں میں اسے پڑھا جاتا ہے۔ ایک عالم اس سے کسب فیض حاصل کرتا رہا ہے۔ ایران کی چونکہ قومی زبان فارسی ہے اس لئے وہاں خاص طورپر کلام اقبال کی پذیرائی زیادہ ہے۔ اقبال کے پیغام فکر اور دانش کے اہل ایران شیدائی ہیں۔ ایرانی اقبال سے بہت محبت کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ایرانی وزیرخارجہ نے جو اس وقت پاکستان کے سرکاری دورے پر ہیں۔ اپنے ہم منصب پاکستانی وزیرخارجہ کے ساتھ مل کر اقبال ڈے کی تقریب میں ان کی سالگرہ کا کاٹ کر اقبال سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ جوں جوں اقبال شناسی دنیا میں عام ہو رہی ہے‘ امت مسلمہ کو اپنے مسائل کا حل وحدت امت کی شکل میں نظر آرہا ہے۔ اقبال نے بھی لیگ آف نیشن کے مقابلے میں اسلامی امہ کی وحدت کا تصور دیا تھا۔ اس لئے انہوں نے کہا تھا …؎
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
لگتاہے وہ وقت آہستہ آہستہ قریب آرہا ہے۔
٭٭……٭٭
بھارت سے دو مزید ہندو خاندان واپس‘ آندھرا پردیش میں مسلم خاندان نے اجتماعی خودکشی کر لی
صرف یہی نہیں‘ ان جیسے کئی خاندانوں کو گمراہ عناصر نے سنہرے خواب دکھا کر بھارت جانے کیلئے مجبور کیا اور جب یہ لوگ بھارت پہنچے تو پتہ چلا یہ صرف خوابوں کی خیالی جنت ہے۔ وہاں زندگی بسر کرنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ وہاں کے معاشرے نے اپنے ہی ان ہم مذہب بھائیوں کی زندگی جہنم بنا کر رکھ دی۔ جو خواب انہیں دکھائے گئے تھے‘ وہ سب جھوٹے نکلے۔ میرپور خاص واپس لوٹ کر آنیوالے یہ 13 رکنی دو خاندان بہتر روزگار اور مستقبل کے جھانسے میں 8 ماہ قبل بھارت گئے تھے۔ یہ لوگ 8 ماہ صبر سے کام لیتے رہے مگر کب تک۔ جب جان کے لالے پڑے تو انہیں واپسی کی راہ اختیار کرنا پڑی۔اب وطن واپس آ کر انکے مرجھائے چہرے پھر کھل اٹھے ہیں۔ ڈی سی میرپور خاص نے ان خاندانوں کو ایک ماہ کا راشن فراہم کرنے کا حکم دیاہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھارت میں ہو رہا ہے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک مسلمان خاندان کے 4 افراد نے صرف اس لئے ٹرین کے سامنے آ کر خودکشی کر لی کہ پولیس نے ان پر چوری کا جھوٹا مقدمہ درج کیا تھا اور انہیں آئے روز تنگ کیا جاتا ہے۔ اپنی آخری ویڈیو میں اس خاندان کے سربراہ نے روتے ہوئے کہا کہ وہ غریب ہے اور یہ ظلم برداشت نہیں کر سکتا۔ ایسے ظالم سماج کو جہاں اقلیتوں پر اتنا ظلم ہو‘ تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
٭٭……٭٭
آوارہ کتوں کے کاٹنے کیخلاف قرارداد پنجاب اسمبلی میں پیش
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ملک میں کتوں کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین بہت کم دستیاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سالانہ سینکڑوں افراد کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر موسم گرما میں جب کتے ہکلا جاتے ہیں ان پر پاگل پن کا دورہ پڑتا ہے۔ ان ظالم یا پاگل کتوں کا آسان شکار بچے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے دیہات میں یا چھوٹے شہروں میں علاج معالجے کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے اور دیسی ٹوٹکوں سے کام چلانے کی بدولت بہت سے بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دیہات کا کیا رونا‘ بڑے شہروں کراچی ، لاہور ، اسلام آباد والے بھی ’’ریبیس‘‘ کی ویکسین کی قلت کا شکار رہتے ہیں۔ بڑے بڑے ہسپتالوں میں کتے کاٹے کے مریض رُل رہے ہوتے ہیں۔ لاہور کی یہ حالت ہے کہ اس سال میں اب تک ایک ہزار 326 لوگ کتوں کا شکار بنے۔ اس فہرست میں قصور پہلے اور لاہور دوسرے نمبر پر ہے۔ شہروں میںآوارہ کتوں کی ٹولیاںپھر رہی ہوتی ہیں۔ کئی علاقوںمیں سرشام لوگ باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ محکمہ بلدیات والے پہلے بھی آوارہ اور پاگل کتوں کو مارنے کی مہم چلاتے رہے ہیں جو تقریباً ناکام رہیں یا صرف کاغذی مہمیں تھیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دیہات اور شہروں کو آوارہ کتوں سے پاک کرنے کیلئے بھرپورجاندار مہم چلائی جائے یا شہریوں کو بھی کتے مارنے کی اجازت دیکر فی دم پیش کرنے پر 100 روپے انعام رکھا جائے تو بہت مفیدنتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
٭٭……٭٭
نابینا افراد کا مال روڈ پر احتجاج جاری۔ ٹریفک کے بہائو میں خلل سے شہری پریشان
حکومت کی طرف سے ڈیلی ویجز پر نابینا افرادکو ملازمت دینے کے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب یہ لوگ ایک بار پھر میدان میںآ گئے ہیں۔ ان سپیشل افرادکا میدان جنگ مال روڈہی ہوتا ہے کیونکہ یہاں صاحبان اقتدار کے دفاتر اور صوبائی اسمبلی سمیت اعلیٰ عدالتیں بھی موجود ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان سب کے ہوتے ہوئے بھی ان بے نوا افرادکی کوئی نہیں سنتا اور یہ بے چارے ہر دو تین ماہ بعد وعدے پورے نہ ہونے پر سراپا احتجاج بنے دن بھر مال روڈپر موسم کی اذیتیںجھیلتے ہیں۔ دیدہ وروں کی دنیا میں جشم بیناسے محروم یہ لوگ حکمرانوں کی بے حسی کا شکار رہتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں معذوروں کے کوٹے پر ہی مکمل عمل ہو جائے اور ان معذوروں کو ہی ایمانداری سے بھرتی کیا جائے تو معاملہ سلجھ سکتا ہے۔ مگر کیا کریں ہمارے ہاں مکمل صحت مند لوگوں کو ان معذوروںکی جگہ انکے کوٹے پر بھرتی کر کے انصاف اور قانون کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ہٹے کٹے صحت مند افراد سفارش یا رشوت کی بدولت ان معذوروں کی آسامیوں پر تعیناتی کرا لیتے ہیں۔ یوں ہر 3 یا چار ماہ بعدیہ بے چارے سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ ان سے وعدے کرنے والے حکمرانوں اور سرکاری عہدیداروں کے پاس کیا اپنے وعدے پورے نہ کرنے کا کوئی جواب ہے۔
٭٭……٭٭