پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی شاندار نہیں رہی کہ اس کا ذکر بڑی شان سے کیا جا سکے۔ یہ تاریخ ایسے ایسے تلخ واقعات کا مجموعہ ہے کہ لکھتے جائیں اور شرماتے جائیں پر پورا اترتی ہے۔ حکمرانوں نے ہمیشہ عوامی طاقت کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔ عوام نے اپنا حق خوب نبھایا ہے اور نجانے کب تک نبھاتے رہیں گے یہ طے ہے عوام اس منزل سے کوسوں دورہیں جہاں قوم کی اخلاق سازی، تربیت سازی، کردار سازی سمیت دیگر اہم امور کہیں بہت پیچھے رہ گئے۔ باوجود نقصان کے، لوٹ مار کے باوجود سیاسی طور پر تقسیم قوم اپنے اپنے رہنماؤں کے لیے سڑکوں پر خوار ہوتی رہی۔ رہنما کبھی بیرون ملک ہیں تو کبھی گھروں میں نظربند۔ دھکے و ڈنڈے کھانے، سختیاں برداشت کرنے اور جان کا نذرانہ ہمیشہ کارکن ہی دیتا رہا ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں عوام کو تعلیم، صحت، امن و امان، اشیاء خوردونوش میسر نہ ہوں، عام آدمی کے لیے زندگی مشکل تر ہو، بجلی، گیس کے بل ادا کرنے کی سکت نہ ہو وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ رہے کہ پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانا چاہیے یا نہیں، پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے یا نہیں، اس ملک کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہو کہ میاں نواز شریف ملک سے باہر جائیں گے یا نہیں، میاں نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت کیسے ملے گی، میاں نواز شریف کو ڈیل دی جائے گی یا ڈھیل دی جائے گی۔ اس طرز سیاست اور طرز حکومت سے ملک کو کیا ملے گا اور عوام کو کیا حاصل ہو گا۔ کیا پرویز مشرف رکے، اگر وہ روک لیے جاتے تو کیا ہو جاتا اور اگر وہ چلے گئے ہیں تو عام آدمی کو اس سے کیا فرق پڑا ہے۔ یہی صورتحال میاں نواز شریف کی ہے۔ ہر دور میں حکمران نان ایشوز میں الجھے رہے اور عوامی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے ذاتی رنجشوں اور اختلافات کو پروان چڑھانے میں مصروف رہے۔ قوم کے فائدے کے بجائے انا کو تسکین پہنچانے کے لیے سیاسی مخالفوں کو رگڑنے کی پالیسی سے نا صرف قیمتی وقت ضائع ہوا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی رنجشوں کو فروغ ملا،میدان سیاست کے کھلاڑیوں نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے ملک و قوم کا مستقبل بھی داؤ پر لگایا۔ آج بھی ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ حکومتی وزراء بڑھ چڑھ کر میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں صرف اس لیے کہ عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کر سکیں اور سیاسی مخالفین کو زچ کر سکیں آپ بتائیں اس طرز سیاست سے عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو دیکھیں انہوں نے الگ ڈرامہ شروع کر رکھا ہے۔ کئی روز پہلے بھی لکھا تھا کہ ان کے آزادی مارچ کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔ اب بھی وہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ نہیں ہو گا۔ انہیں کیا ضرورت پڑی تھی جب سو دن تک لاکھوں کشمیریوں کو کرفیو اور لاک ڈاون میں رکھا گیا ہے ان حالات میں مولانا فضل الرحمان پاکستان کے لاک ڈاون کی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ ترجیحات کے تعین کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں ہے۔
موجودہ سیاسی حالات میں چودھری شجاعت حسین کا کردار سب سے اہم نمایاں اور حقیقت پسندانہ ہے حالانکہ میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد سب سے زیادہ سخت رویہ ان کیساتھ رکھا لیکن مشکل وقت میں چودھری شجاعت حسین کا میاں نواز شریف کیلئے آواز بلند کرنا ان کا بڑا پن ہے۔ چودھری برادران نے سیاسی مخالفت کے باوجود میاں نواز شریف کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کیلئے اہم کردار نبھایا گو کہ بعض لوگ اس حوالے سے انہیں تنقید کا نشانہ ضرور بناتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ چودھری برادران نے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر درجہ حرارت کو قابو میں رکھنے اور جمہوریت کی بقا کیلئے اپنا کردار نبھایا ہے۔ ناتجربہ کار سیاستدانوں کو ان کے اس رویے اور طرز عمل سے ضرور سیکھنا چاہیے۔
اب اس کیس میں وزیراعظم عمران خان کا کردار دیکھا جائے تو انہوں نے اپنے سخت موقف سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کیا۔ اس کیس کا سیاسی پہلو یہ بھی ہے عمران خان نے انتقام کی سیاست کو دفن کیا ہے۔ ماضی میں سیاسی حریفوں کو ختم کرنے کیلئے آخری حد تک جایا کرتے تھے۔ عمران خان نے ایسا کرنے کے بجائے نئی طرز سیاست کو فروغ دیا کہ مشکل وقت میں اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف سے انتقام لینے کے بجائے خرابی صحت کی وجہ سے میاں نواز شریف کے بارے اپنے سخت موقف سے پیچھے ہٹے۔ ن لیگ والے سارا دن عمران خان کو برا بھلا کہتے ہیں کیا انہیں دل بڑا کر کے وزیراعظم کے اس فیصلے کی تعریف نہیں کرنی چاہیے۔ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی اور اس حوالے شدت ابھی تک سیاست کے طالبعلموں کو یاد ہو گی۔ عمران خان نے میاں نواز شریف کی صحت کو دیکھتے ہوئے اپنے لیے مشکل راستے کا انتخاب کیا کیونکہ اس کا ردعمل کچھ بھی ہو سکتا اور اس کے سنگین نتائج بھی انہیں بھگتنے پڑتے لیکن اس فیصلے کے ذریعے وزیر اعظم نے ملکی سیاست میں رواداری اور احساس کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ باوجود اس کے کہ اپوزیشن انہیں تنقید کا نشانہ بنائے گی، اداروں کا بوجھ وزیراعظم پر آئیگا انہوں نے تمام نقصانات کو جاننے کے باوجود میاں نواز شریف کیلئے بہترین علاج کے فیصلے کی حمایت کی۔
اسی کیس میں افواج پاکستان کو بھی تنقید کا سامنا بنایا جاتا رہا لیکن ملکی سرحدوں کی ضامن اور ملکی بقاء کی جنگ لڑنے والی بہترین فوج کے سپہ سالار نے بھی سیاسی عمل میں الجھنے کے بجائے ملکی دفاع پر توجہ مرکوز رکھی۔ انہیں نشانہ بنایا گیا لیکن اس کا جواب تحمل مزاجی سے دیا گیا اور یہی وقت کا تقاضا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے کن الفاظ میں فوج کو یاد کیا اس کا جواب بھی تحمل مزاجی سے دیا گیا۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی شک باقی رہتا ہے کہ فوج نے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی خدمات انجام دی ہیں اس کے باوجود اگر کسی کو اعتراض ہے تو اسے بات کرنے کی مکمل آزادی نظر آتی ہے۔
ہمیں مل جل کر آگے بڑھنا چاہیے۔ نان ایشوز میں الجھنے کے بجائے حقیقی مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ شخصیات کا آنا جانا لگا رہتا ہے ان کے ساتھ جڑے رہنے کے بجائے وسیع تر ملکی مفاد کے پیش نظر اور عوامی مسائل کے پہاڑ کو دیکھتے ہوئے فیصلے زمینی حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے کیے جائیں تو سرمایہ، وقت سب کچھ بچے گا اور عوام کو فائدہ ہو گا۔ یقیناً میاں نواز شریف کی جماعت نے اس کیس سے یہ سبق ضرور حاصل کیا ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024