روزمرہ مسائل میں دھنسے عوام کو طفل تسلی سے زیادہ حقیقی ریلیف کی ضرورت ہے
وزیراعظم عمران کا معیشت بہتر ہونے اور حکومتی توجہ عام آدمی کو ریلیف دینے پر مرکوز کرنے کا عندیہ اور مہنگائی کے نئے سونامی
وزیراعظم عمران خان نے حکومتی معاشی ٹیم کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ حکومت کی کوششوں کے نتیجہ میں معاشی صورتحال مستحکم ہوئی ہے اور کاروباری برادری کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت حکومت کی توجہ عام آدمی کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرنے پر مرکوز ہے‘ معاشی استحکام کو مزید بہتر بنانا اور سرمایہ کاروں و کاروباری برادری کیلئے آسانیاں پیدا کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ معدنیات اور کان کنی کے شعبوں کے فروغ پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ تیل‘ گیس اور معدنیات کے شعبے میںصوبوں کی استعداد کار بڑھانے کے ضمن میں وفاقی حکومت ہر ممکن طریقے سے معاونت کریگی۔ انہوں نے کہا کہ اشیائے ضروریہ کی طلب و رسد اور مستقبل کے تخمینوں کے حوالے سے مربوط منصوبہ بندی کے تحت وزارت فوڈ سکیورٹی میں ایک خصوصی سیل قائم کیا جارہا ہے تاکہ مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر جامع انتظامی اقدامات اٹھائے جاسکیں۔ اس سے نہ صرف طلب اور رسد کا فرق ختم ہوگا بلکہ قیمتوں کو قابو میں رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔
دریں اثنا تعمیرات سیکٹر کی بحالی و فروغ کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تعمیرات کے شعبے سے لگ بھگ چالیس صنعتیں منسلک ہیں‘ اس شعبے سے جہاں متعلقہ صنعتوں کو ترقی ملے گی‘ وہیں نوجوانوں کیلئے نوکریوں کے مواقع میسر آئینگے۔ دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی بہتر پالیسیوں ملک کے معاشی نظام استحکام کی طرف گامزن ہے جس کی گواہی آئی ایم ایف نے دی ہے۔ انہوں نے برآمد کنندگان کی مدد کیلئے 200‘ ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ برآمدی سیکٹر کو قرضوں کے مارک اپ میں مدد دی جائیگی۔ انکے بقول مہنگائی کے سب سے بڑے دشمن وزیراعظم ہیں‘ حکومت نے چار ماہ میں کوئی نوٹ نہیں چھاپے‘ ہم سمگلنگ روکنے کیلئے موِ¿ثر اقدامات کررہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ادوار حکومت میں گھمبیر ہونےوالے روٹی روزگار اور غربت‘ مہنگائی کے گوناںگوں مسائل سے لاچار ہوئے عوام نے اپنے ان مسائل سے نجات اور اپنے اقتصادی حالات میں بہتری کیلئے عمران خان میں امید کی کرن محسوس کی اور انکے تبدیلی اور نئے پاکستان کے ایجنڈے پر صاد کرتے ہوئے جولائی 2018ءکے انتخابات میں انہیں حکمرانی کا مینڈیٹ دیا۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے نشری خطاب میں ریاست مدینہ کا تصور بھی پیش کیا اور کہا کہ وہ ملک کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کے متمنی ہیں۔ ریاست مدینہ کا تصور یہی ہے کہ اس میں شہریوں کو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا اور انہیں جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوگی اور ہر قسم کے معاشی و اقتصادی استحصال کا خاتمہ کیا جائیگا۔ آئین و قانون کی حکمرانی‘ میرٹ اور انصاف کی عملداری ہوگی‘ اقرباپروری کا خاتمہ ہوگا‘ حکمران اشرافیہ طبقات کی عیاشیاں اور اللے تللے ختم کئے جائینگے۔ ریاست کے ہر شہری کو قانون کی نظر میں مساوی حیثیت حاصل ہوگی اور کاروبار و روزگار کے مساوی مواقع میسر ہونگے۔ یہ درحقیقت ایک ایسی جمہوری‘ اسلامی‘ فلاحی ریاست کا تصور ہے جو بانیانِ پاکستان اقبال و قائد کا مطمح¿ نظر تھا مگر قائداعظم کے انتقال کے بعد ملک اور عوام کو ایسی قیادت میسر نہ آسکی جو اس ارض وطن کو بانیان پاکستان کے ایجنڈے کے مطابق ایک اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی ریاست کے قالب میں ڈھال سکے البتہ یہ وطن عزیز انگریز کے ٹوڈی مفاد پرست سیاست دانوں اور طالع آزماﺅں کے ہتھے ضرور چڑھتا رہا جنہوں نے جمہوری اقدار اور آئین و قانون کی حکمرانی کے تصور کو ملیامیٹ کرکے شخصی آمریت مسلط کرنے کی راہ اختیار کی۔ اس تناظر میں عوام کی فلاحی ریاست والی توقعات کئی منتخب جمہوری ادوار میں بھی پوری نہ ہوسکیں جبکہ ان ادوار میں کرپشن‘ اقرباپروری اور حکمران طبقات کے ہاتھوں قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کے فروغ پاتے کلچر نے عوام کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے دلدل کی جانب دھکیل دیا جن کیلئے میرٹ پر روزگار کا حصول بھی ایک خواب بن کر رہ گیا۔ اسکے علاوہ بیرونی قرضوں میں جکڑی ہماری معیشت سے بھی عوام کے غربت‘ مہنگائی کے مسائل میں اضافہ ہوا اور ہر پیدا ہونیوالے بچے کے سر پر بھی قرض چڑھا ہوا نظر آیا۔
جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو قومی معیشت کی حالت انتہائی دگرگوں تھی‘ زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک نیچے جاچکے تھے‘ گردشی قرضے بھی انتہائی گھمبیر صورت اختیار کرچکے تھے اور بیرونی قرضوں کا بوجھ روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ امریکہ نے ڈومور کے تقاضے کرتے کرتے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں ملنے والی پاکستان کی سالانہ گرانٹ بھی روک لی تھی اور اس پر عالمی اقتصادی پابندیوں کی تلوار بھی لٹکا دی گئی تھی۔ ایسی صورتحال میں کسی معیشت کا اپنے پاﺅں پر کھڑے رہنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے چنانچہ وزیراعظم عمران خان اور انکی پارٹی پی ٹی آئی کو اقتدار میں آتے ہی قومی معیشت کو سنبھالا دینے کے ایسے بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا جن سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ¿ کار نہیں تھا۔ چنانچہ وزیراعظم نے قوم کو بھی ملک کی اقتصادی صورتحال اور درپیش مسائل سے کھل کر آگاہ کیا اور مشکل فیصلوں کا عندیہ دیا۔ جب پی ٹی آئی کے اقتدار کا آغاز ہوا تو عوام اسکے انقلابی منشور کے باعث اپنے تئیں خوش اور مطمئن تھے کہ اب ملکی معیشت کو سابق حکمرانوں کی پیدا کردہ خرابیوں سے نجات مل جائیگی اور انکے روٹی روزگار سمیت تمام مسائل بتدریج حل ہونا شروع ہو جائینگے۔ تاہم پی ٹی آئی کے اقتدار کے آغاز ہی میں پٹرولیم‘ بجلی‘ گیس کے نرخوں میں اضافے اور منی بجٹ میں عائد کئے گئے نئے ٹیکسوں کے باعث مہنگائی کے نئے سونامی اٹھنا شروع ہوگئے جسے ڈالر کی بڑھتی شرح نے بھی مہمیز لگائی چنانچہ مہنگائی سے پہلے ہی عاجز آئے عوام عملاً زندہ درگور ہوگئے۔ اسی دوران عوام کو برادر مسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر اور سالہا سال کے بے لوث دوست چین کی جانب سے حکومت کیلئے بیل آﺅٹ پیکیج کی صورت میں خوشخبریاں ملنا شروع ہوگئیں جبکہ آئی ایم ایف کے چھ ارب ڈالر کی قسطیں بھی وصول ہونا شروع ہوچکی ہیں۔
اگر قومی معیشت کو سنبھالا اور سہارا دینے والے ایسے سازگار حالات کے باوجود عوام میں اپنے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کے حل کے حوالے سے مایوسی بڑھ رہی ہے‘ عالمی مارکیٹ میں مسلسل کم ہوتے تیل کے نرخوں سے بھی عوام کو کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا اور مہنگائی کا عفریت بدستور منہ کھولے عوام کو نگلنے کیلئے بڑھ رہا ہے تو اس مایوسی سے پیدا ہونیوالے عوامی ردعمل سے ہی مولانا فضل الرحمان کو حکومت کیخلاف آزادی مارچ اور دھرنے کی صورت میں اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملا ہے جو آج بھی وزیراعظم کے استعفے سے کم کسی مطالبے پر آمادہ نہیں ہورہے جبکہ دوسری اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت مخالف سیاست میں ان کا دم بھر رہی ہیں۔
بے شک وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عوام کے غربت‘ مہنگائی کے مسائل حل کرنے کیلئے انتظامیہ کو ضروری ہدایات بھی جاری کی جاتی رہی ہیں اور اقدامات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں مگر عملاً عوام کو اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے معاملہ میں ابھی تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ اسکے برعکس مہنگائی کا عفریت مزید توانا ہورہا ہے اور ملک بھر میں اشیائے خوردو نوش‘ ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ عوام کی پہنچ سے دور ہوگئے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا ہے‘ آٹا‘ روٹی‘ دودھ‘ چینی‘ پیاز‘ ٹماٹر اور دوسری سبزیوں کے نرخ بھی آسمانوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں ٹماٹر 200 سے 300 روپے فی کلو‘ ادرک پانچ سو روپے کلو‘ پیاز دو سو روپے کلو اور گوبھی جیسی عام استعمال کی سبزی بھی ڈیڑھ سو روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ عام آدمی بھنڈی‘ توری‘ کریلا تک خریدنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ اسکے ساتھ ساتھ آٹا15 روپے فی تھیلا مہنگا ہوچکا ہے جبکہ اس وقت چینی 90 روپے کلو میں فروخت ہو رہی ہے اور 43 ضروری استعمال کی اشیاءکے نرخوں میں 289 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ عوام تو مہنگائی کے اس سونامی کے آگے ٹھہر نہیں پا رہے جبکہ مارکیٹوں میں مصنوعی طور پر بڑھائے جانیوالے اشیاءکے نرخوں پر بھی انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں۔ عوام مہنگائی سے ریلیف کی دہائی دے رہے ہیں مگر مشیر خزانہ حفیظ شیخ مارکیٹ میں ٹماٹر 17 روپے فی کلو دستیاب ہونے کا دعویٰ کرکے جہاں عوام کے صبر کا مزید امتحان لے رہے ہیں وہیں وہ حکومت کیلئے بھی سبکی کے اسباب پیدا کررہے ہیں۔ وزیراعظم تو یقیناً مہنگائی کے سب سے بڑے دشمن ہونگے کیونکہ انہیں عوام سے ملنے والے اپنے مینڈیٹ کی پاسداری ہے مگرانکی معاشی ٹیم کے سربراہ کو عوام پر مسلط ہونیوالی اصل مہنگائی کا ادراک ہی نہیں اور وہ سابقہ ادوار کی طرح سب اچھا کی رپورٹ پیش کرکے عوام کے غیظ و غضب کو مزید دعوت دے رہے ہیں۔
جب حکومت کی صفوں میں عوام کو مزید ڈیڑھ دو سال تک صبر کرنے‘ دو روٹیوں کی جگہ ایک روٹی کھانے کی تلقین کی جائیگی اور ناروا ٹیکسوں کے اچھوتے جواز پیش کئے جائینگے تو اس سے عوام کو ریلیف دینے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی کوششیں بھی اکارت جائیں گی اور اپوزیشن کو حکومت مخالف تحریک پروان چڑھانے کا موقع ملتا رہے گا۔ آج غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری ہی عوام کے اصل مسائل ہیں۔بے شک سارے چوروں‘ ڈاکوﺅں کو پھانسی پر لٹکا دیں‘ کسی کرپٹ کو نہ چھوڑنے کے اعلانات کو عملی جامہ پہناتے رہیں اور بے لاگ احتساب میں کوئی کسر نہ چھوڑیں مگر عوام کا اضطراب تبھی ختم ہوگا جب انہیں روٹی‘ روزگار اور مہنگائی کے گھمبیر مسائل میں ریلیف ملے گا۔ اس کیلئے عوام محض زبانی جمع خرچ سے مطمئن نہیں ہونگے بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو عملی اقدامات اٹھانا ہونگے اور ناجائز منافع خوروں کی من مانیوں کا بھی ٹھوس بنیادوں پر قلع قمع کرنا ہوگا جیسا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے قیمتیں کنٹرول کرنے کیلئے انتظامیہ کو دفاتر سے باہر نکلنے کی ہدایت کی ہے۔ اسی طرح عوامی مسائل کے حل کیلئے وزیراعظم کی جانب سے جاری ہونیوالے احکام کی بھی انکی روح کے مطابق تعمیل ہونی چاہیے جس کی آج اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک سے نمٹنے کیلئے ضرورت بھی ہے۔ اگر حکومت کی مالی اور اقتصادی پالیسیوں کی سمت درست کردی جائے اور مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کیلئے انتظامی مشینری کو متحرک کردیا جائے تو عوام کو کم از کم مہنگائی میں ضرور ریلیف مل سکتا ہے۔