بدھ ‘15 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 13؍ نومبر2019 ء
ٹڈی دل کا کراچی پر حملہ۔ وزیر زراعت کا بریانی اور کڑھائی بنا کر کھانے کا مشورہ
وزیر زراعت سندھ کا یہ قیمتی مشورہ سن کر دل باغ باغ ہو گیا ہے۔ کیسے کیسے اعلیٰ دماغ لوگ ہمارے پاس ہیں مگر ہم ان کو پہچان نہیں پائے۔ یہ تو سندھ حکومت کی مدبرانہ قیادت ہے جنہوں نے ایسے گوہر نایاب کو پہچان لیا اور وزارت زراعت انکے سپرد کر دی۔ کاش حکومت سندھ انہیں لائیو سٹاک کا محکمہ بھی دے دیتی تو انکی خدمات کا اعتراف ہوتا۔ تھر والے تو عرصہ دراز سے آگ سے جھلستی اس دھرتی پر ننگے پائوں سفر کرنے اور چلنے کے عادی ہیں۔ انہیں چھائوں اور پانی کی فکر ہوتی ہے روٹی تو وہ سوکھی بھی کھا لیتے ہیں۔ موسم زیادہ نامہربان ہو تو جھونپڑیوں کو چھوڑ کر دوسرے قریبی علاقوں میں ہجرت کر جاتے ہیں۔ ان کے علاقہ پر جب ٹڈی دل کا حملہ ہوا تو انہوں نے اس کو من و سلویٰ سمجھ کر قبول کیا۔ وہاں اُگتا ہی کیا ہے جو ٹڈیاں کھاتیں اُلٹا وہاں کے لوگوں نے ان صحت مند فصلی ٹڈیوں کو بھون کر کڑاہی بنا کر اور بریانی بنا کر نوش جان کیا تو سوشل میڈیا میں دھوم مچ گئی۔ کھانے پینے کے شوقین ٹڈیوں کا ذائقہ چکھنے تھر کی طرف جانے لگے۔ اب انہیں تھر جانے کی ضرورت نہیں۔ کراچی میں بھی ٹڈی دل من و سلویٰ کی طرح برسنے لگا ہے۔ اب کراچی والے بھی انکے تکے بنا کر کڑاہی بنا کر یا بریانی بنا کر کھانوں کا مزہ دوبالا کر سکتے ہیں۔ حیرت صرف وزیر زراعت اسماعیل راہو کے مشورے پر ہے۔ بجائے اس کہ وہ ٹڈی دل کیخلاف سپرے اور دیگر اقدامات کا ذکر کرتے وہ انہیں کھا کھا کر ختم کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
کتے کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ۔کئی افراد جاں بحق
اخباری اصطلاح میں کتا انسان کو کاٹے تو خبر نہیں بنتی ہاں اگر کوئی انسان کسی کتے کو کاٹ لے تو خبر بنتی ہے۔ شاید یہ بات ہمارے ملک میں کثیر تعداد میں پائے جانے والے آوارہ کتوں نے بھی سن رکھی ہے۔ جبھی تو وہ آئے روز انسانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کتوں کے کاٹنے پر متاثرہ شخص کو ٹیکے لگانے اور علاج کی سہولتوں کا ہمیشہ اعلان بھی ہوتا رہتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل جیسے ہی کتے کے کاٹنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں اسی رفتار سے سرکاری حفاظتی مراکز اور ہسپتالوں سے کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین غائب ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں آئے روز کتے کے کاٹنے سے مرنے والوں کی خبریں، علاج کی ویکسین نہ ملنے کی خبریں عام ہیں۔ میڈیا پر بھی آتی ہیں مگر اس کا اثر کسی پر نہیں ہوتا۔ ایک وقت تھا بلدیہ والے ہر سال کتے مارنے کی مہم چلاتے یوں آوارہ کتوں کی تعداد میں کمی ہوتی رہتی۔ اب یہ سلسلہ بھی متروک ہو گیا۔ کتے کے مارنے کے دو طریقہ تھے ایک ان کو زہر دیدیا جاتا دوسرا انہیں گولی مار دی جاتی۔ دونوں صورتوں میں جب عوام بلدیہ سے مرے ہوئے کتوں کو اٹھانے کا کہتے تو جواب ملتا کتے مارنا ہمارا کام تھا ان کی لاش اٹھانا ہماری ذمہ داری نہیں۔ کئی مرتبہ تو یہ خبریں بھی سننے میں آئیں کہ بلدیہ کی طرف سے زہر دینے کے باوجود کوئی کتا نہیں مرا یعنی زہر بھی ملاوٹی یا دو نمبری تھا۔ اب یہی حل رہ گیا ہے کہ عوام ازخود گلیوں محلوں شہروں اور د یہات میں پھرنے والے آوارہ کتوں کو ماریں۔ انسانوں کو کتوں کے ہاتھوں مرنے کیلئے لاوارث چھوڑا نہیں جا سکتا۔
٭٭٭٭
آلودگی کی وجہ سے بنارس میں بتوں کو ماسک پہنا دئیے گئے
یہ عجب لوگ ہیں زندوں انسانوں کو مارنے پر تلے رہتے ہیں اور بے جان مورتیوں کو ماسک پہنا دیتے ہیں۔ اب بھلا دیوتا شیو اور دیوی پاروتی کے بتوں کو اس آلودگی سے کیا سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے یا وہ اس آلودگی سے پریشان ہونگے۔ اس پر کوئی بھارتی نہایت عالمانہ بلکہ عاجلانہ قسم کا بیان جاری کر کے ہندو آبادی کو خوش کر سکتا ہے۔ اب کوئی ان پجاریوں سے یہ پوچھے کہ باقی دیوی دیوتائوں نے کیا جرم کیا ہے کہ ان کی مورتیوں کو ماسک نہیں پہنایا جا رہا۔ کیا وہ آلودگی سے متاثر نہیں ہو رہے۔ بنارس میں یہ ایک مندر نہیں وہ تو ہندوئوں کا سب سے مقدس تیرتھ استھان ہے۔ وہ ہزاروں مندر ہیں دریائے گنگا کے کنارے آباد یہ قدیم شہر اب چنئی کہلاتا ہے۔ حالانکہ بنارس زیادہ خوبصورت لفظ ہے اردو ادب میں تو ’’صبح بنارس‘‘ ایک خوبصورت استعارہ ہے کیونکہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اسکی سنہری کرنیں ان مندروں کے کلس پر پڑتی ہیں تو آسمان ہی نہیں سارا شہر سنہری رنگ میں ڈوب جاتا ہے۔ ماہرین یہاں کے شمشان گھاٹوں کی وجہ سے پریشان ہیں کیونکہ ہندو دھرم میں یہاں مرنے والے کی چتا کی راکھ گنگا میں بہانے کا مطلب آوگون کے چکر سے نجات ہوتا ہے۔ مردے جلانے سے جو آلودگی ہوتی ہے بدبو پھیلتی ہے اس سے شہر کی آب و ہوا خطرناک آلودگی کا شکار ہے اب یہ سموگ نے قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ شاید سموگ کی وجہ سے ہندو اب خود تو منہ ڈھانپ ہی رہے تھے اب دیوی دیوتائوں کے بھی منہ ڈھانپ کر انہیں اس آلودگی سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭
میٹرو بس سٹیشنوں کی ابتر حالت، صفائی اور برقی سیڑھیوں کا نظام خراب
حکومتیں عوام کی سہولتوں کا ہمیشہ خیال رکھتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی حکومتوں کی طرف سے عوام کی سہولتوں کے بے شمار منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ یہ کام ہوتا تو بہت زور و شور سے ہے مگر بعدازاں ایسے منصوبوں کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے انکی حالت بگڑنے لگتی ہے اور یہ وبال جاں بنتے نظر آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک عوامی منصوبہ میٹرو بس کا تھا جس سے عوام فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر اب اس کے سٹیشنوں کی حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کوئی طاقت اس عوامی منصوبے کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ بیمار اور بوڑھے مسافر سیڑھیاں چڑھنے سے بیزار ہیں۔ سامان اور بچے اٹھائے خواتین بھی پریشان ہیں۔ پہلے سکیورٹی اور صفائی کا عملہ ہمہ وقت دستیاب ہوتا تھا اب صفائی کا معاملہ ختم لگتا ہے۔ وائی فائی کی سہولت بھی ختم ہو چکی ہے، برقی سیڑھیاں بند پڑی ہیں۔کرایہ بڑھا دیا گیا سہولتیں کم کی جا رہی ہیں۔ دنیا بھر میں میٹرو بس سسٹم نہایت خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ ہم اسے ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے بُرا حال اورنج ٹرین کا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کبھی آج کبھی کل کا اعلان ہوتا ہے۔ مگر اس کے چلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ لوگ حیران ہیں کہ آخر یہ منصوبہ شیطان کی آنت کیوں بنتا جا رہا ہے۔ عوام علیحدہ پریشان ہیں کہ جن چیزوں سے فائدہ ہونا چاہئے وہ پریشانی کا باعث کیوں بن رہے ہیں۔ موجودہ وزیر اعلیٰ درد دل رکھنے والے انسان ہیں وہ ہی اس طرف توجہ دیں اور میٹرو بس سٹیشنوں کی حالت سدھارنے کا حکم جاری کریں۔ بعدازاں اگر دل چاہے تو اورنج ٹرین بھی رواں کر دیں۔
٭٭٭٭