کرتار پور راہداری کا افتتاح : بابری مسجد
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کرتارپور راہداری کا کا افتتاح کردیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے کو سفارتکاری کا ’’ماسٹر سٹروک‘‘کہا جارہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی تاریخ میں اس فیصلے کو شاندار اور یادگار الفاظ میں یاد رکھا جائیگا اور پاک بھارت کے درمیان امن کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ انسانی تاریخ میں جو عظیم انسان اخلاقی اصولوں کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں وہ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ بابا گرونانک کا شمار انسانی تاریخ کے عظیم سپوتوں میں ہوتا ہے، ان کی تعلیمات صدیاں گزرنے کے بعد بھی رنگ لے آئی ہیں، یہ کریڈٹ انکی عظمت اور شخصیت کو جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی قیادت اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ بابا گرونانک کے دوسرے مقدس ترین گردوارے تک پہنچنے کیلئے راستے کھول دیئے جائیں تاکہ سکھ کمیونٹی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق آسانی کے ساتھ کرتارپور پہنچ کر اپنے گرو کے گوردوارے کی زیارت کرسکے۔ پاکستان کی حکومت نے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق سکھوں کو سہولتیں فراہم کی ہیں جو ریاست مدینہ کی بنیادی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کی سنہری تعلیمات امن سلامتی اور یکجہتی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے درست کہا کہ اگر ہندوستان کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر آمادہ ہو جائے تو برصغیر دنیا کا ایک عظیم خطہ بن کر اُبھر سکتا ہے اور دونوں ملک باہمی تجارت کرکے غربت کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور نوجوانوں کیلئے روزگار فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ پنجاب کے وزیراعلیٰ امرندر سنگھ اور معروف کرکٹر اور سیاستدان نجوت سنگھ نے شرکت کی جبکہ پاکستان کی جانب سے اس تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی گورنر پنجاب چودھری سرور، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سمیت دوسرے وفاقی اور صوبائی وزراء موجود تھے۔ پاک فوج کا ادارہ ایف ڈبلیو او ہمارے خراج تحسین کا مستحق ہے کہ اس نے 9 ماہ کی قلیل مدت میں کرتارپور راہداری کی تعمیر مکمل کر دی جبکہ اس سلسلے میں سویلین حکومتوں کا ریکارڈ افسوس ناک رہا ہے اور انکے اکثر منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے سکھ برادری کیلئے ویزہ فری سہولت فراہم کرکے ان کو کو بابا گورونانک کے گردوارے تک پہنچنے کیلئے سہولیات فراہم کیں۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی اس اقدام کو سراہا اور بھارت اور پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس بات کی توقع کی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان امن اور سلامتی کی بحالی کیلئے مزید سنجیدہ کوششیں کی جائیں گی۔ کرتارپور راہداری کا افتتاح ایک عظیم تاریخی موقع تھا، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا فرض تھا کہ وہ اس تاریخی موقع کی اہمیت کے پیش نظر تقریر تیار کرتے اور ان کا خطاب تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا۔ برصغیر کے کروڑوں غریب محروم اور مفلس عوام اس دن کو ترس رہے ہیں جب پاک اور بھارت کے درمیان مستقل اور پائیدار امن قائم ہو سکے گا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے دفاعی اخراجات میں کمی کر کے انہیں غربت دور کرنے کیلئے خرچ کیا جا سکے گا کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دونوں ملک اپنے دفاع پر غیر معمولی اخراجات کر رہے ہیں جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے سوشل سیکٹر بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ کرتارپور راہداری امن اور سلامتی کی کنجی ثابت ہو اور دونوں ملکوں کے درمیان ترقی اور خوشحالی امن اور سلامتی کے مزید دروازے کھل سکیں۔ البتہ یہ توقعات اسی وقت پوری ہوں گی جب کشمیری عوام کو ان کا بنیادی پیدائشی حق خودارادیت مل جائیگا اور دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کا بنیادی مسئلہ کشمیر حل ہو جائیگا۔
بابری مسجد مسلمانوں کی قدیم تاریخی عبادت گاہ ہے جس میں وہ پانچ سو سال تک اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کی عبادت کرتے رہے ہیں۔ 1992ء میں ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو مسمار کردیا جس کے بعد ہندوستان میں فسادات پھوٹ پڑے جن میں 2000ء افراد جان بحق ہو گئے۔ یہ تنازعہ آخرکار سپریم کورٹ میں پہنچا مگر افسوس کہ سپریم کورٹ کو اس مقدمے کی سماعت ایک ایسے ماحول میں کرنی پڑی جو انتہائی کشیدہ اور انتہا پسندی کا شکار ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے اپنے متفقہ فیصلے میں یہ قرار دیا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ پر ہندوؤں کا مندر تعمیر کیا جائیگا اور مسلمانوں کو اپنی مسجد تعمیر کرنے کیلئے پانچ ایکڑ اراضی فراہم کی جائیگی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ 1992ء میں بابری مسجد کی مسماری غیر قانونی تھی پاکستان کی وزارت خارجہ نے بجا طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے جو آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہے۔ ہندوستان کے کئی ماہرین دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ہرچند کہ سپریم ہے مگر غلطی سے مبرا نہیں ہوسکتی۔ سنی وقف املاک بورڈ کے نمائندے ظفریاب نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ آئین اور قانون کی حکمرانی کی بجائے عقیدے کی بنیاد پر سنایا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔ بھارت میں آئین ہار گیا ہے اور عقیدہ جیت گیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بھارت کا سیکولرازم اور جمہوریت کا چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی جو بھارت کی آزادی اتحاد اور سلامتی کیلئے خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر بھارت کی تمام اقلیتیں متحد ہوگئیں تو ہندو اقلیت میں رہ جائینگے اور ان کیلئے اپنی بالادستی کو قائم رکھنا اتنا آسان کام نہیں ہوگا۔ آنے والا مؤرخ یہ بھی لکھے گا کہ آر ایس ایس کی شدت اور انتہا پسندی پر مبنی پالیسیوں اور وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہائی افسوسناک سرکاری اور حکومتی حکمت عملی کی وجہ سے بھارت میں انتشار اور نفاق پیدا ہوا جس کی وجہ سے بھارت کے ہندو کمزور اور زوال پذیر ہوگئے۔ ہر ریاست کی سپریم کورٹ آئین اور قانون کی رٹ نافذ کرکے انصاف کو یقینی بناتی ہے، افسوس بھارتی سپریم کورٹ انتہا پسند ہندوؤں کے دباؤ میں آگئی اور بھارت کے مستقبل کو ہی داؤ پر لگا دیا۔