جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ میں تصادم اور تعاون
اسلام آباد میں مارگلہ ڈائیلاگ کے عنوان سے جاری کانفرنس پاکستان میں روایتی کانفرنسوں سے اس لحاظ سے منفرد ہے کہ علاقائی امور کے ماہرین‘ تعلیم کے شعبہ سے وابستہ دانشور جنوبی ایشیاء میں مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیاء میں علاقائی تعاون‘ امن اور سلامتی کیلئے ایسے فریم ورک پر غور کررہے ہیں جن کے ذریعہ ان علاقوں میں امن اور سیکیورٹی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے ایسی مشترکہ حکمت عملی تیار کی جائے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں اس طرح کے ڈائیلاگ منعقد ہوتے ہیں ۔ اسلام آباد یہ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اس ڈائیلاگ کو باقاعدہ طور پر ہر سال منعقد کرنے کی روایت ڈالی ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد روایتی فوجی قوت کو بطور پالیسی ہتھیار استعمال کرنے میں کمی آئی ہے۔ مختلف ملکوں کے ایک دوسرے پر بڑھتے ہوئے معاشی انحصار میں دفاع کر رہا ہے۔ بین الاقوامی سلامتی کے تصور میں نہ صرف فوجی خطرات‘ بلکہ نظریاتی ‘ لسانی نسلی‘ فرقہ واریت اور ماحول کو درپیش خطرات بھی شامل ہوگئے ہیں۔
کسی ایک ملک میں ضم ہونیوالے خطرات دوسرے ممالک پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر موسمیاتی تبدیلیاں اور انکے نتیجے میں پانی کی کمی کے مسائل فوڈ سیکورٹی سے متعلق اب کسی ایک ملک کی سرحدوں تک محدود نہیں یہ مسائل دوسرے ملکوں کو اپنی لپٹ میں لے رہے ہیں۔
گلوبلائزیشن اب دو دھاری تلوار بن گیا ہے شمالی جنوب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق اور مقبولیت پسندی کے نعروں نے ترقی یافتہ ملکوں کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے یہ رجحانات اب ملکوں اور معاشروں کو یکجا کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی ‘ سیاسی افکار اورثقافتی رجحانات کے میل جول سے مختلف معاشروں میں ایک نیا رشتہ تشکیل پارہا ہے۔ سوشل میڈیا نے عام آدمی کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ بھی سیاسی مباحث میں حصہ لے۔ عام آدمی بھی اب بین الاقوامی بحث مباحثے اور تحریکوں میں اس ذریعہ سے اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ ابلاغ اور مواصلات کے نئے ذرائع نے دور دراز علاقوں میں ثقافتی رابطے پیدا کر دئیے ہیں۔ بعض ملکوں میں اس صورت حال سے قوم پرستانہ رحجانات میں شدت آگئی ہے جبکہ بعض ملکوں میں اس طریقہ سے ایک بہتر ‘ مثبت رابطہ اور تعلق استوار ہوا ہے۔
اکیسویں صدی میں جنوبی ایشیائ‘ مشرق وسطیٰ اور سنٹرل ایشیاء میں قربت اور رابطوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر ملکوں کے درمیان نئے رشتے استوار ہونے سے ان خطوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مغرب سے مشرق کی طرف معاشی ترقی کے رجحان میں اضافہ ‘ چین کی معاشی ترقی اور ابھرتے ہوئے روس نے دوسری جنگ کے بعد بننے والے نظام کیلئے نئے چیلنج پیدا کر دئیے ہیں۔ بعض مفکروں کیمطابق بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی نے اب تصادم کے خدشات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
پہلے سے موجود بڑی طاقتیں جب ابھرتی ہوئی طاقتوں کو اپنے معاشی اور عوامی مفادات کیلئے خطرہ سمجھتی ہیں تو اس فکر اور سوچ سے تصادم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بڑی طاقتیں ابھرتی ہوئے طاقت کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ہیں اس سے بین الاقوامی نظام میں کشیدگی جنم لیتی ہے۔ اس سے نیا تصادم جنم لے سکتا ہے۔ ’’تھیوسی ڈائیٹر‘‘ کے اس نظریہ کے تحت علاقائی اور عالمی سطح پر تصادم کی شکل ابھرسکتی ہے۔ جنوبی ایشیاء ‘مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیاء میں ان رجحانات کے باعث علاقائی اور عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافے کے امکانات ہیں۔ بڑی طاقتوں کی رقابت بھی وہ تنازعات جن کو حل نہیں کر سکتی بلکہ صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیتی ہے۔ یہ سارا خطہ اپنے بے پناہ قدرتی وسائل کے باعث فوجی تصادم کی زد میں ہے۔ نائن الیون میں اس خطے میں لڑائی اور کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
چین کی ایک پٹی اور ایک سڑک ایک سفرکے منصوبے سے بھی اس نئے آئیڈیل کو تقویت مل رہی ہے۔ پاک چین راہداری میں کے پی آر آئی منصوبے کا ایک فلیگ شپ حصہ تصور ہوتا ہے اس منصوبے سے علاقائی اور عالمی سطح پر مختلف ملکوں میں رابطوں اور تعاون میں اضافہ ہوگا۔ کروڑوں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوگا اور لوگ غربت کی دلدل سے نکل سکیں گے علاقائی ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ترقی کیلئے علاقائی سلامتی ناگزیر ہے لیکن غیر حل شدہ تنازعات سلامتی اور خوشحالی کیلئے بڑا خطرہ ہیں۔جنوبی ایشیاء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کا مسئلہ کشمکش اور کشیدگی کا بڑا سبب ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ہمسایہ ممالک میں کشمیر کا تنازعہ کئی دہائیوں سے حل طلب چلا آرہا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ نہ صرف اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کی منافی ہیں بلکہ وہ بھارت کے اپنے آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ گزشتہ ایک سو دن سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور مواصلاتی بندش کا سلسلہ جاری ہے بین الاقوامی برادری کی خاموشی کے سبب انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ۔ تنازعات حل نہ ہونے کے باعث دوسرے ادارے بھی متاثر ہورہے ہیں ۔ (سارک) اسکی ایک مثال ہے۔ جنوبی ایشیاء کے ملکوں کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے یہ تنظیم قائم کی گئی تھی جو پاک بھارت کشیدگی کے باعث بالکل مفلوج ہوچکی ہے۔
بدقسمتی سے سارک میں اس علاقے کی بڑی طاقت بھارت کی پالیسی اور رویہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ پاکستان کے ساتھ عداوت اور کشیدگی سے یہ تنظیم بے اثر ہوچکی ہے۔
مارگلہ پلیٹ فارم نہ صرف علاقائی اور عالمی مسائل پر بحث کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ وہ ان مسائل کے عملی حل کے لئے تجاویز اور سفارشات بھی تیار کرتا ہے۔