11-11-1918کودن 11بجے وہ تاریخی لمحہ تھا جب پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کا اعلان ہوااور جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ یہ دن گزشتہ روز شایان شان انداز میں دنیا بھر میں (خاص طور پر امریکا) میںمنایا گیا، اس دن کو رممبرنس ڈے (Remembrance Day) یا ویٹرنز ڈے(Veterans Day) کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے دعا ئیہ تقاریب اور سیمینارمنعقد کئے جا تے ہیں، ویٹرنز ڈے کی تقاریب تین دن تک جاری رہتی ہیں۔یہ ایک اچھی روایت ہے کہ جن لوگوں نے اس دھرتی پر اپنے ملک کی خاطر لڑتے ہوئے جان دی انہیں یاد رکھا جائے۔ اس دن کی مناسبت سے مجھے تحریک پاکستان کے وہ 10لاکھ لوگ یاد آگئے جنہوں نے پاکستان بننے کے لیے عظیم قربانی دی، ہندو یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان اس طرح آزاد ہو جائے گا۔ اس لیے اُن کے ہاں سوگ برپاہوگیا،صفِ ماتم بچھ گئیں اورآہ وبکا شروع ہوگئی۔ پھر وہ غیض وغضب اور نفرت وانتقام کی آگ کا بگولہ بن کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ اور پھر چشمِ فلک نے ان ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ظلم وستم کے وہ مظاہرے دیکھے کہ انسانیت رہتی دنیا تک اِس پر ماتم کناں رہے گی۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے جب مجوزہ پاکستان کے قریبی علاقوں کے مسلمانوں نے اپنے گھر بار اور مال واسباب سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ اپنی جانیں بچانے کیلئے پاکستان کی طرف ہجر ت کرنا چاہی تو ہندوؤں اور سکھوں نے انہیں اپنی تلواروں، کرپانوں، برچھیوں اور نیزوں کی نوک پر رکھ لیا۔ شہروں کے شہر ، قصبوں کے قصبے ، گاؤں کے گاؤں اور محلوں کے محلے مسلمانوں کے وجود سے صاف کردیئے گئے۔ اس طرح کہ بچے ، جوان ،بوڑھے اور بوڑھیاں تہِ تیغ کردی گئیں اور جوان لڑکیوں اور عورتوں کو وحشیانہ آبروریزی کے بعد یاذبح کردیاگیا ، جلادیاگیا ، ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا یا باندیوں کی طرح گھروں میں ڈال لیاگیا، اور ان کے گھر لوٹ لئے گئے۔ ا س شیطنت اورفرعونیت کے دوران 10لاکھ سے زائد مسلمان مردوں ،عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو شہید کیاگیا ، لاکھوں زخمی اور لاکھوں عمر بھر کیلئے معذور ہوگئے۔ڈیڑھ لاکھ کے قریب جوان مسلمان لڑکیاں اورعورتیں اغوا کرلی گئیں۔جان و مال اور عزت وآبروکے تحفظ سے محروم ستر سے اسی لاکھ مسلمان ہندوستان کے مختلف علاقوں سے راستے میں اپنے پیاروں کو گنواتے ،کٹواتے ، مرتے اور مارتے خالی ہاتھ پاکستان ہجرت کر آئے۔
اس حوالے سے ’’1947ء کے مظالم کی کہانی خود مظلوموں کی زبانی ‘‘میں حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی ایک مظلوم عورت کے ساتھ ہونے والا واقعہ رقم کرتے ہیں کہ ’’قیام پاکستان کے اعلان کے فورًا بعد شمالی ہندوستان کے طول و عرض میں ہندومسلم فساد پھوٹ پڑے۔ انسانی اور اخلاقی قدریں محض قصہ ماضی بن کر رہ گئیں۔ سالہا سال سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ ان حالات میں میرے والد نے گاؤں کے دوسرے لوگوں سے مشورے کے بعد پاکستان کی طرف ہجرت کا فیصلہ کیا، لیکن ہندوؤں اور سکھوں کو یہ بات بھی گوارا نہ تھی اور عین ہماری روانگی کے وقت آس پاس کے گاؤں سے مسلح جتھے وہاں پہنچ گئے اور چشم زدن میں تمام مردوں کو تہِ تیغ کردیا۔ نوجوان لڑکیوں کو ان کی ماؤں کے سامنے اجتماعی ہوس کا نشانہ بنایاگیا۔ آج بھی جب میں ان دلخراش منظر کوچشم تصور سے دیکھتی ہوں تو یقین نہیں آتا کہ ابن آدم ذلت کی ان گہرائیوں تک بھی جاسکتاہے۔ میرا معصوم بھائی باقی بچوں کی طرح ڈرا سا کھڑا تھا۔ جب اس نے چند حیوانوں کو میری طرف بڑھتے دیکھا جن پر میری منت سماجت کا کوئی اثر نہیں ہورہا تھا تو بھاگ کر میرے سامنے آگیا اور مجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ تبھی ایک منحنی سے ہندو نے اپنی کلہاڑی کا زوردار وار اس معصوم کی گردن پر کیا جس سے اس کا سر تن سے جداہو کر دْور جاپڑا۔ اس پر اس ظالم نے شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا اگر مجھے معلوم ہوتاکہ تمہاری گردن اتنی کمزور ہے تو اپنی کلہاڑی تمہارے گندے خون سے بھرشٹ (ناپاک) نہ کرتا۔ اب مجھے اپنی کلہاڑی گنگاجل سے دھو کر پوتر (پاک) کرنی پڑے گی‘‘ یہ کہہ کر وہ بھی شیطانی کھیل میں شامل ہوگیا۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹ کر گرا۔ تمام بوڑھی عورتوں کو قتل کرنے کے بعد سب لڑکیوں کو وہ ایک حویلی میں لے گئے اور سب قطار بناکر کھڑے ہوگئے اور باری باری اپنے ’’اشرف المخلوقات‘‘ ہونے کا ثبوت فراہم کرتے گئے۔اس عمل میں، میں زندہ بچ جانے والی چند خوش نصیب یا بدنصیبوں میں بھی شامل تھی۔ اس کے بعد میں ایک کے ہاتھوں سے دوسرے تک پہنچتی رہی۔ آخر سوہن سنگھ نے مجھے اپنے گھر ڈال لیا اور شادی بھی کرلی۔ سات سال بعد سوہن سنگھ سورگباش ہوگیا تو اس کے چھوٹے بھائی مہندر نے مجھ سے شادی کرلی۔‘‘
ایک واقعہ لیجیے جو اُس وقت ایک مشہور جریدے میں شائع ہوا ’’ہوشیار پور کی وہ رات بے حد طویل تھی۔ چوک سراجاں پر حملے کی دوسری رات، حملہ آوروں کی تعداد میں اضافہ ہورہاتھا۔ پہلے روز پچاس نوجوان شہید ہوئے۔ دوسرے روز ساٹھ، شام ہونے سے پہلے دوچار ایسے دلدوز واقعات ہوئے کہ مسلمانوں کی عزیمت اور جوش میں زبردست اضافہ ہوا۔ بزرگ اور نوعمر بھی میدان میں اترنے لگے۔ عصر کے وقت سے دست بدست لڑائی ہورہی تھی۔ ایک مسلمان نوجوان گرا، خون کے فوارے نکل رہے تھے۔ اس نوجوان کا گھر لڑائی کے میدا ن کے بالکل سامنے تھا۔گھر کا ایک چھوٹا بچہ یہ منظر دیکھ رہاتھا۔ خواتین کو ہوش نہ رہا اور بچہ ابا ابا کہتے ہوئے دروازے سے نکل کر ہندوؤں اور سکھوں کی طرف بھاگا۔ سکھوں نے بچے کو پکڑ لیا اور چلاّ چلّا کر اعلان کیا، دیکھو ہم آج مُسلے کے بچے کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ مسلمان دم بخود تھے کہ یہ بچہ وہاں کیسے پہنچ گیا۔ سکھوں نے بچے کو اوپر اُچھالا اور نیچے سے نیزے پر اسے لے لیا۔ بچے کی چیخ اس قدر دلدوز تھی کہ آسمان تک لرز اٹھا۔ اُ س نے تڑپ تڑپ کر وہیں جان دے دی۔ ‘‘
مشرقی پنجاب میں خون کا جوسیلاب آیا اس کا کچھ اندازہ’ لندن ٹائمز ‘کے نامہ نگار آین مورسن کی ذاتی مشاہدات پر مبنی ان تین رپورٹوں سے لگایاجاسکتاہے جو اُس نے اگست اور ستمبر1947ء کو جالندھر اور امرتسرسے اپنے اخبار کو ارسال کی تھیں۔پہلی رپورٹ میں وہ لکھتا ہے ’’ سکھ مشرقی پنجاب کو مسلمانوں سے خالی کروانے میں سرگرم ہیں۔ و ہ ہرروز بے دردی سے سینکڑوں افراد کو تہِ تیغ کرتے ہیں اور ہزاروں کو مغرب کی جانب بنوکِ شمشیر بھگادیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے دیہات اور گھر وں کو نذرآتش کررہے ہیں۔ اس ظلم وتشدد کو سکھوں کی اعلیٰ قیادت نے منظم کیا ہے اور یہ خوفناک کام بڑے معین طریقے سے علاقہ بہ علاقہ کیاجارہاہے۔ ‘‘ دوسری رپورٹ میں لکھتا ہے ’’امرتسر میں 8اگست کے بعد مسلمانوں کے محلوں کے محلے دھڑا دھڑجلناشروع ہوگئے تھے اور لوگ پناہ کے لئے بھاگنا شروع ہوگئے۔ 13اور 14اگست کو پورا امرتسر شعلوں کی لپیٹ میں آچکاتھا۔ 15اگست کو امرتسر میں ہندوستان کا ’یوم آزادی‘ بڑے عجیب طریقے سے منایاگیا۔سہ پہر کو سکھوں کے ایک ہجوم نے برہنہ مسلمان عورتوں کا جلوس امرتسر کے گلی کوچوں میں نکالا۔ ان کی آبروریزی کی اور پھر بعض کو کرپانوں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بعض کو زندہ جلادیا۔‘‘ تیسری رپورٹ میں وہ مسلمانوں کے ایک بیس میل لمبے قافلے کے بارے میں ایک خبران الفاظ میں بجھواتاہے ’’اس قافلے میں بیس ہزار سے زائد افرا د تھے اور ان میں سے اکثر پید ل ہی پاکستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ ایسے ہی کئی اور قافلے مشرق سے مغر ب کی طرف رواں دواں تھے۔ آبلہ پا ، تھکان سے چور، بھوکوں کے مارے، سفر کی صعوبتوں سے نڈھال‘‘۔ دوماہ بعد وہ لکھتاہے ’’70لاکھ سے زائد مہاجرین گرتے گراتے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ وہ بالکل بے سروسامان تھے۔ ان کے پاس تن کے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور ان کپڑوں کی بھی اکثر دھجیاں اُڑی ہوئیں تھیں۔ یہ وہ دردکشانِ بلا تھے جنہوں نے معصوم بچوں کا قتل ،لاشوں کی قطع وبریدی اور عورتوں کی بے حرمتی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ راستے میں ہر قدم پر موت ان کی گھات میں تھی۔ ان میں سے ہزاروں بھوک وبیماری سے راستے ہی میں جاں بحق ہوگئے یاسکھوں کے خون آشام جتھوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔بہت سے پاکستان کی سرحد پرپہنچتے ہی ابدی نیند سوگئے۔ ‘‘
ان واقعات کو دہرانے کا مقصد یہ نہیں کہ پرانے زخم تازہ کیے جائیں بلکہ مقصد محض یہ ہے کہ جو قومیں اپنے شہداء کو بھلا دیتی ہیں اُن کو اُن کی منزل کبھی نہیں ملتی، وہ راستے میں بھٹک جاتے ہیں، اس لیے جن لوگوں نے وطن عزیز کے لیے قربانیاں دیں ہمیں اُن لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ ہمیں ہر اُس دن ان لوگوں کو یاد کرنا چاہیے جب ہم اپنی موج مستیاں منانے کے لیے مختلف دن ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہم نے تو اُن 70ہزار لوگوں کی قربانیوں کو بھلا دیا ہے جوحالیہ برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔لہٰذامیری حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ان شہداء کی یاد میں بھی دن منائے، اس کا سرکاری سطح پر آغاز کرے تاکہ عوام کے اندر شعور پیدا ہو اور ہم اپنے مقاصد کے حصول میں آگے بڑھ سکیں۔
گاڑیاں بنانے والے پاکستانی اداروں میں قیمتیں گھٹانے کی دوڑ
Mar 16, 2024 | 13:40