ہائر ایجوکیشن ۔۔۔۔۔۔۔ کس طرح ہو ؟
یقینا اعلی تعلیم سے معاشرہ،ملک نسلیں بنتی ہیں،لیکن کیا پاکستان جیسے ملک میں اعلی سے پہلے صرف تعلیم اور وہ بھی بنیادی و ثانوی تعلیم کی شرط کیا کسی حد تک پوری ہوچکی ہے؟ ایک مخصوص اور بااثر خوشحال طبقہ نے جو بیرون ملک جاکر آسانی سے بڑے بڑے کورس کرکے ڈگریاں حاصل کرسکتے ہیں پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے نام سے ایسی مہم چلائی کہ سیاسی حکمرانوںگویاان کے گرویدہ ہو کرفیصلے کرنے لگے ۔ماہرین کے مطابق ایسا ملک جہاں 2کروڑ 80لاکھ بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہوں اور جہاں مڈل کلاس کے بعد سکول چھوڑنے کی شرح 45فی صدسے زائد ہو وہاں ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کرنا،پی ایچ ڈی کی تعداد پر تشویش ظاہر کرنا اور دنیا میں اپنی یونیورسٹیوں کی رینکنگ بڑھانے کی مد میں فنڈز میں اضافہ کرواتے جانا،چہ معنی دارد؟ پھر اس پر ظلم یہ کہ ہمیں سنگارپور سے لے کر جاپان ،ہالینڈ،سویڈن،نیوزی لینڈکی مثالیں دیکر بتایا کہ وہ کیسے ہائر ایجوکیشن میں اس مقام پر پہنچے کہ ان کی یونیورسٹیاںفلاں فلاں کارنامے انجام دے رہی ہیں۔جبکہ یہ وہ ملک ہے جہاں کے سکولوں میں پانی ،بجلی ،فرنیچر،چاردیواری اور ٹائلٹ کی تعمیر کے لیے پراجیکٹ غیر ملکی امداد سے کیے جارہے ہیں ۔اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم کالج،یونیورسٹی ،ریسرچ کا کام اس وقت تک روک دینے کا کہہ رہے ہیںجب تک پرائمری و سیکنڈری تعلیم کا ڈھانچہ مضبوط نہ ہو جائے بلکہ قوم کو ہائر ایجوکیشن کے نام پر خوفزدہ کرنے )یعنی یہ کہ اگر ہائر ایجوکیشن نہ ہوئی تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا،دنیا قرضہ نہیں دے گی( کی بجائے اس کو پاکستان کی ہمت کوششیں ،ضرورت ،ذرائع کے مطابق چلایا جائے ۔
اب آتے ہیں اعلی تعلیم کے نام پر قائم کردہ وفاقی ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے وجود ،ضرورت ،اہمیت کی طرف جنرل(ر) پرویز مشرف نے اپنے وقت کے ایک معروف ماہر تعلیم پی ایچ ڈی بیرون ملک کے تربیت و تحقیق سے لیس ڈاکٹر صاحب کے مشورہ اور اصرار پر2002میں HECنامی اداراہ قائم کروایا۔بس اب تک وہی وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہا ہے یعنی سکول کالج والی وکٹ پہ بھی اور یونیورسٹی والی پر بھی۔ڈاکٹر صاحب موصوف عرصہ ہواHECسے جاچکے تاہم اب قومی سطح پر مضمون نویسی کے ذریعے HECکے وجود و ناگزیر ہونے پر ہما تن مصروف قومی سطح کے ماہر کے ساتھ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور معلومات میں اضافہ بھی۔بقول ان کے یونیورسٹیوں اور پی ایچ ڈی کی تعداد میں اضافہ کی دوڑ سے وہ قوم اور حکمرانوں کو تو چکر دے سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے ۔حقیقت یہ ہے کہ 2002سے آج تک 15سال میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے قوم کو تعداد ،اعداد و شمار دیگر ممالک سے موازانہ اور یونیورسٹیوں کی رینکنگ کی دوڑ لگوا کر خوب اپنی اہمیت بنالی ہے۔گزشتہ روز لاہوراور اسلام آبادمیں جب بر روزگار پی ایچ ڈی سکالرز نے جلوس نکالا اور سڑک بلاک کردی تو یوں تعلیم کے میدان میں ہائر ایجوکیشن نے نئی تاریخ رقم کی یہ لیں جی15سال میں ہم نے ایک پراڈکٹ اعلی تعلیم کے نام پر دیا ہے۔اب ان کو سنبھالے حکومت ۔بقول ایک اہم ادارہ کے ،اب HECوفاقی سطح پر اپنے وجود اور بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ ان کو معلوم ہے کہ جلد وفاقی ماہرین ،حکومت ،قوم ان کی ضرورت اور وجود پر اس لیے سوال اٹھانے جارہی ہے کہ یہ ملین اور بلین ڈالرز کے فنڈزان کوکس لیے دئیے جارہے ہیں جبکہ ملک میں بجلی اور واپڈا کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔پانی اور آبی وسائل کی قلت نے قحط کی منزل دکھا دی ہے۔زراعت جسے ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے اسکے مہرے ہل کے ٹیڑھے ہوگئے ہیں ۔اور اب وہ جھک گئی ہے ۔جہاں معدنیات کی نشاندہی ہے لیکن اس کو مفید بنانے والے ماہرین و فنڈز نہیں ۔حالت یہ ہے کہ فروٹ ،سبزی،ماربل پتھر تک انڈیا اور چائناسے لیتے ہیں بلکہ چائنا تو اب رقم فنڈز،پراجیکٹ کے ساتھ اپنی لیبر فورس کی شرط بھی منوارہا ہے جہاں بہتر مضبوط اور قابل بھروسہ کام کے لیے غیر ملکی ماہرین بھی بلائے جاتے ہیں ،جہاں کی ادویات کے فارمولے امپورٹڈہیں اور جب تک سپریم کورٹ کٹہرے میں کھڑا کرکے ڈرائے نہ دل کے علاج کے لیے آلات اور سٹنٹ نہیں تیار کیے جاتے تو پھر کیسے ماہر ،کیسے محقق،کسیے پی ایچ ڈی تیار کررہی ہے؟ قوم کو انگریزی طبقہ اب معاف کرے پاکستان کی پالیسیاں پاکستان میں بنانے دے ۔ماہر پروفیسر صاحبان جو پی ایچ ڈی کرنے میں ایک عمر لگا دیتے ہیں ان کو یونیورسٹیوںکی سربراہی دے کر ان حقیقی صلاحیت کو ختم کردی جاتی ہے۔اور آج کل نیب نے وی سی ہونے کا شوق بھی ختم کردیا ہے کہ بقول میر تقی میرـــ'' اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی ٹھیک ہے'' وی سی صاحبان کا احترام اپنی جگہ لیکن ان کے خلاف کیس حکومت ،نیب یا عوام کی شکایت پرقائم نہیں ہوئے بلکہ خود ان کے اساتذہ ۔طلبہ اور جانشین وائس چانسلرز کی کی نشاندہی پر قائم ہوئے ہیں پنجاب یونیورسٹی کے تین وائس چانسلر ز فوجی جرنیل رہے اور پھر سب سے بڑھ کرمثال انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور کی ہے جہاںریٹائرڈ جرنیل وائس چانسلر بنے اور مسلسل چار مرتبہ ان کی مدت ملازمت میں تو سیع کا ریکارڈ قائم کیا گیا (جو ایشیاء یا دنیا میں مثال ہو)اور وہ تین مختلف حکومتوں میں یہ توسیع خود ان حکومتوں کی درخواست پر لیتے رہے ۔راولپنڈی کے ایک ماہر نے بتایا کہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST)میں شاہد ہی کسی پی ایچ ڈی وائس چانسلرنے اسکے کسی کالج میں کوئی کردار ادا کیا ہو جو اسکے نان پی ایچ ڈی سربراھان نے کیا اور یہ ملک کی ٹاپ یونیورسٹی میں شامل ہوئی۔اسکا مطلب قطعا یہ نہیں کہ پی ایچ ڈی حضرات کی اہلیت پر شک ہے بلکہ ان کو استاد اور محقق رہنے دیںان کو ضائع نہ کریں۔
ہمارے کالج سیکٹر کے ایک دوست نے پی ایچ ڈی کرلی ہم نے یوچھا کہ آپ کے کام ،کارکردگی ،کالج کی تعلیم میں کیا فرق پڑا؟ انہوں نے کہا کہ کالجوں میں کیا ریسرچ ہونی ہے اور نہ ہی گریڈ میں اچانک اضافہ ممکن ہے بس ہمیں ایک سال کی تگ و دو سیکرٹریٹ کے چکر لگانے کے بعد جو دس ہزار روپے ماہانہ الاونس مل رہا ہے وہی فائدہ اور حاصل محنت ہے۔ہم نے سوچا تو پھر یہ جو پی ایچ ڈی کو ـ" ایمان"کے بعد اتنا ضروری قرار دیا جارہا ہے وہ غارت گیا۔کالج ٹیچر نے مسکراکر کہا کالجوں میں طلبہ پی ایچ ڈی ٹیچرز سے سخت بیزار ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پی ایچ ڈی کرکے تھک گئے ہیں اب پڑھا نہیں سکتے لہذا عمومی جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ ایسے ہی خیالات سننے کو ملیں گے ۔یعنی ہونا یہ چاہیے کہ بالخصوص یونیورسٹی کی سطح پر کام کرنے والے سنیئر اساتذہ جو پی ایچ ڈی کے حامل ہوں وہ یونیورسٹی میں بیٹھ کر ملک و قوم کے لیے کام کررہے ہوں اور پھر یہ کام نظر بھی آئیں ۔اداروں ،ماہرین اور قوم کے سامنے لائے جائیں کہ ملک کا اتنا فنڈ جن لوگوںکو پی ایچ ڈی کروانے میں لگا وہ یوں لوٹا بھی رہے ہیں ۔
حال ہی میں یونیورسٹیوں سے وابستہ ٹیچرز نے بتایا کہ یکم جنوری 2019سے H ECنے شرائط مزید سخت کرتے ہوئے ضروری قرار دے دیا ہے کہ لیکچرارکو صرف اسی صورت ترقی دی جائے گی اگر وہ پی ایچ دی ہو ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اقدامات سے اعلی تعلیمی اداروں میںمایوسی و اچاٹ پیدا ہو رہا ہے اب وہ بھی کہنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ پی ایچ ڈی کی موج ظفر موج پیدا کرنا ملک و قوم سے زیادہ وفاقی ادارہ HECکے اپنے وجوداور قیام کے جواز کے لیے ضروری ہے۔یعنی جتنے زیادہ پی ایچ ڈی ہوںگے اسی قدر HECکو بجٹ حاصل کرنا آسان ہوگا اور یوں نہ صرف ان کی اپنی نوکریاں بچیں گی بلکہ گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہیگا۔خود ہائر ایجوکیشن کمیشن کے حال ہی میں ریٹائرہونے والے چیئرمین کا کیس تحقیقاتی اداروں کے پاس گیا ہے اور حال ہی میں کمیشن کے ایگزیکٹیوڈائریکٹر کو اپنی پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالہ میں نقل ثابت ہونے پر جبری استعفی دینا پڑا۔موجودہ حکومت کو چاہیے کہ 18ویں ترمیم کے تحت ہر صوبہ اپنی یونیورسٹیوں کو اپنی ضرورت اور وسائل کے مطابق فنڈز دے اور جتنے پی ایچ ڈی ان کے لیے ناگزیر ہوں اتنے پیدا کرے اور ان سکالرز کو انتظامی عہدوں میں الجھانے کی بجائے قوم کو حقیقی ترقی پہ لگائے یہ انٹرنیٹ اور گوگل کا زمانہ ہے اب سکول کے طالب علم بھی اس جدید ترین ریسرچ سے آگاہ ہیں جو قبل ازیں سالہاسال بعد سننے پڑھنے کو ملتی تھی لہذا پاکستان کو اسکے بنیادی ضروریات اور معاشی مسائل سمجھ کر چلائیںنہ کہ ترقی یافتہ ممالک کا دورہ کرکے ۔