ملک و قوم کو بحرانوں سے بچانا اشد ضروری ہے !
گزشتہ سے پیوستہ
حدیث مبارکہ ہے : ’’لا رَھبانیۃ فیِ الاسلام ‘‘( اسلام میں رہبانیت نہیں ہے ) اسلام متوازن زندگی کو پسند کرتا ہے اور ایسی ہی زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے (عبادتوں کے لیے ترک دنیا اورلذتوں سے کنارہ کشی) انھوں نے خود ایجاد کر لی تھی ،اسے ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا ، مگر انھوں نے رہبانیت کی یہ بدعت محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کی ‘‘۔اب چند فرزندان اسلام کے لیے آپ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے وطن کو لا دینیت کی طرف دھکیل کر اس کا چہرہ مسخ نہیں کر سکتے بے شک ہمیشہ سے بیرونی طاقتوں نے کوشش کی کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والی اس ریاست کے جداگانہ تشخص کو ختم کر دیا جائے اور مغرب کی فکری یلغار ایسی ہی کاوشوں میں برسر پیکار ہے کہ کبھی مذہبی معاملات اچھال کر اور کبھی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کو ہوا دیکر ملکی حالات کو قابل رحم بنا دیا جاتا ہے ۔ جو لوگ بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بنتے ہیں ان کا احتساب ضروری ہے کیونکہ جنگ میں ملک و قوم کا استحکام اور مذہبی اقدارو روایات کا دائو پر لگنا لمحہ فکریہ ہے ۔عوام الناس کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ :
اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
انھی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے آغاز میں ہی اس امر کی کوشش کی کہ علاقائی ، نسلی اور لسانی جماعتوں کے دوراندیش عہدے داران کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے اور انہیں قومی ذمہ داریاں بھی سونپی جائیں تاکہ تجربہ کار اور سیاست کو کاروبار بنانے والے سیاستدانوں کی شعبدہ بازیوں سے بچا جا سکے ۔علاوہ ازیں تحریک انصاف کو ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں احتسابی کھینچا تانیوں کی وجہ سے حکومت بنانے کے لیے پرامن ماحول ملا ۔ حالات سازگار رہے اور ملکی و قومی سلامتی کے اداروں کا بھی بھرپور تعاون میسر رہا تاہم قوت فیصلہ کی کمی کہیں یا خود اعتمادی کی انتہا کہ وفاق میں بھاری کامیابی ملتے ہی تحریک انصاف کے راہنمائوں نے عوام سے رابطہ تو ڑ لیا اور حکومتی ترجمانوں اور رویوں نے قوم کو مایوس کیا حالانکہ لکھاری لکھتے رہے کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اور حکومتی ترجمان جواباً کہتے رہے ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ‘‘ماضی کے حکمرانوں کے طرز حکومت کو آپ ’’بد عنوانی ‘‘ سے تو تعبیر کر سکتے ہیں مگر پارلیمینٹ کے فلور سے لیکر پریس کانفرنس تک سر عام چور ، ڈاکو اور لٹیرے کہنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے اور اس پر طرہ یہ کہ آسیہ مسیح کے معاملے پر وزیراعظم اور حکومتی ترجمانوں کے کنٹینر بیانات بھی سوالیہ نشان تھے مگر پھر سبھی کو کنٹینر سے اترنا پڑا اور افہام و تفہیم سے معاملات کو طے کرنا پڑا مگر اب پھر وہی تحکمانہ انداز اور یو ٹرن پالیسی عوام الناس میں تشویش کا باعث ہے ۔موجودہ سرکار کو اپنے رویے کو بدلنا پڑے گا بریں وجہ آصف زرداری نے بھی کہا ہے کہ ’’عمران خان کو بولنے کی عادت ہے، جو بری عادت ہے، ہم نے کہا ہے کہ اب تم ایگزیکٹو پوزیشن میں آجائو اور ہمیں اپوزیشن کرنے دو مگر وہ نہیں سمجھتا ‘‘۔یہی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ بر سر اقتدار کو مصالحت پسند ، نرم مزاج اور بردبار ہونا چاہیے مگر سب کچھ جوں کا توں رہا اور یہی وجہ ہے کہ عنان حکومت سنبھالنے کے ابتدائی مہینوں میں ہی تبدیلی سرکار کو ان حالات کا ہی سامنا ہے جنھوں نے نواز حکومت کو دیوار سے لگانے میں اہم کردار ادا کیا ۔دیوار کے ساتھ لگانے کی بات چل نکلی ہے تو ہمیں مولانا فضل الرحمن پر تھریٹ الرٹ یاد آگیا کہ مولانا کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے ۔اگر یہ دیوار سے لگانے کی کوشش نہیں ہے تو یقینا ملک دشمن عناصر متحرک ہو چکے ہیں لہذا حکومت کو راہداریوں پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی کہ اب کنٹینر سیاست سے نکل کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ مولانا سمیع الحق کی شہادت سے ثابت ہوچکا ہے کہ اب گھروں میں بھی کوئی محفوظ نہیں ہے ۔
عالمی حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ امریکہ چین تجارتی تنازعہ شدت پکڑ رہا ہے کہ دنیا کی دو مستحکم ریاستیں تصادم کی جانب بڑھ رہی ہیں ۔امریکہ چین کے بڑھتے اثر و رسوخ اوردنیا میں پھیلتی جدید ٹیکنالوجی سے خائف ہوچکا ہے بریں وجہ صدر ٹرمپ نے اپنی حلفیہ تقریر میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ سے بیروزگاری ختم کرے گا اور وہ تمام روزگار واپس لائے گا جو امریکہ کے چین منتقل ہونے کے باعث ختم ہو گئے ہیں ۔اس وعدے کی تکمیل میںامریکی صدر ایسی حکمت عملیاں اپنا رہے ہیں جن کی زد میں بہت سے ممالک آ سکتے ہیں ایسے میں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہوگا ۔بہرحال انسانوں کی اکثریت موقع فہم نہیں ہوتی اور وقت کسی کا نہیں ہوتا ۔۔نو منتخب حکومت نے حکومت سنبھالتے ہی ایسی حکمت عملیوں ،منصوبہ بندیوں اور فیصلہ سازیوں کا آغاز کر دیا ہے جو کہ مسلسل ان کا ووٹ بینک گرا رہی ہیں اور پوری کابینہ اس فکر میں ہلکان ہو رہی ہے کہ مولانا کا ایجنڈا کیا ہے ؟ حالانکہ سوچنا چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی کا ایجنڈا کیا ہے کہ بلاول بھٹو نے ملکی خراب صورتحال پر وزیراعظم کی تقریر کو نہ صرف سراہا بلکہ یہ بھی نعرہ لگا دیا کہ قدم بڑھائو عمران خان ہم تمہارے ساتھ ہیں۔یہ تو تب بھی ساتھ تھے جب ماضی کے حکمرانوں نے ختم نبوت شق کو چھیڑا اور رعونت کا لبادھا اوڑھا تو سب خاموش تماشائی بن گئے اور انتظار کرنے لگے کہ اس قومی بحران کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔اللہ کسے سرخرو اور کسے رسوا کرتا ہے اور پھر وقت کی گھڑیوں نے دیکھا کہ وہ تمام لوگ کہیں نہ کہیں سزا پا گئے جو خود کو آسمان سمجھتے تھے۔اس بحران کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلی سرکار کو اپنی حکمت عملیاں ترتیب دینی چاہیںتھیں مگر حالیہ منصوبہ سازیاں اور ترجیحات تو عوام الناس کے لیے ذہنی کوفت اور اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں ۔