پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی بھی عمران خان سے بہتر کرکٹ کو نہیں جانتا۔ وہ اس سے بھی بڑی بات کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بینیفشری ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کی وجہ سے وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے ہیں اور اپنے باس کی مدح سرائی میں چار قدم آگے بھی جا سکتے ہیں۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی پابندی لگا سکتا ہے۔ احسان مانی عمران خان کو خوش کرنے یا رکھنے کے لیے انکی تعریف میں اس سے بھی وزنی الفاظ استعمال کر سکتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کو احسان مانی کے اس سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے کہ ملک میں ان سے زیادہ کرکٹ کوئی نہیں جانتا۔ کھیل کے میدان میں عمران خان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ انہیں کھیل کی سمجھ بوجھ، فکر اور شعور بارے کسی کی تعریف کی ضرورت بھی نہیں۔ پھر احسان مانی کو اس طرح کے بیانات دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ان خیالات کے اظہار کے بعد بحثیت چیئرمین کیا وہ اپنے باس کو کسی مسئلے پر قائل کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔؟؟؟ انہیں ایسے بیانات دینے کی ضرورت کہیں اس لیے تو پیش نہیں آتی کہ عمران خان محکمہ جاتی کرکٹ کے بڑے مخالف ہیں وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں اور پی سی بی چیئرمین اس کام کے لیے راہ ہموار کرنے اور رائے عامہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب وہ محکموں کا کیس لڑنے سے پہلے ہی یہ تسلیم کیے بیٹھے ہیں کہ عمران خان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تو پھر آنے والے دنوں میں وہ اپنے باس کے سامنے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کا دفاع کیسے کر سکیں گے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ صرف چھ ریجنز فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلیں اگر وہ پاکستان کی کرکٹ کو سب سے بہتر جانتے ہیں تو بورڈ چیئرمین عمران خان کے سامنے باقی ماندہ دس ریجنز کا کیس کیسے لڑیں گے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ عمران خان کے پیچھے چھپنے کے بجائے اپنے تجربے کی بنیاد پر آگے بڑھیں۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیں مشاہدہ کریں اور پھر وزیراعظم کو آگاہ کریں۔ یہ ساری بحث محکمہ جاتی کرکٹ سے شروع ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے سامنے اس اہم معاملے پر دلائل سے بات کرنے والے نہیں ہیں اور اگر کوئی بات کرتا بھی ہے تو خان صاحب منہ دوسری کر لیتے ہیں یا پھر موضوع بدل دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارے بورڈ کے چیئرمین کا معلوم ہوتا ہے۔ اس مسئلے پر عمران خان کو سب سے برتر دکھانے اور بتانے والے احسان مانی شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اگر آج کرکٹ پاکستان میں مقبول ترین کھیل ہے، ملک بھر میں اسکا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، ہم بین الاقوامی سطح پر ایک شناخت رکھتے ہیں، ہر دور میں ہمیں باصلاحیت کھلاڑی ملتے رہتے ہیں کرکٹ آج بھی شوق سے کھیلی جاتی ہے تو اس کا سارا کریڈٹ مرحوم اے ایچ کاردار کو جاتا ہے۔ انہوں نے محکمہ جاتی کرکٹ کا آغاز کیا۔ کرکٹرز کو اچھے معاوضوں پر ملازمتیں ملیں، انکا معاشی مستقبل محفوظ ہوا، نوجوانوں کو کھیل میں اپنا مستقبل محفوظ نظر آیا تو کھیلنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ مختلف محکموں میں کرکٹ ٹیمیں بننے سے ہزاروں افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔والدین نے بھی اپنے بچوں کو کرکٹر بنانے کے لیے محنت کی۔ اگر معاملہ صرف گیند بلے کی حد تک ہوتا اور معاشی مستقبل محفوظ نہ ہوتا تو صورتحال بھی مختلف ہوتی۔ ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج اگر ملک بھر میں کرکٹ کھیلی جا رہی ہے اسکے پسند کرنیوالوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو اس نیکی میں سب سے بڑا حصہ مرحوم اے ایچ کاردار کا ہے۔ ایک کھلاڑی اور کپتان کی حیثیت سے پاکستان کرکٹ کے ابتدائی ایام میں انکا کردار ناقابل فراموش ہے۔ انیس سو باون میں بھارت کے خلاف فتح، انیس سو چون میں اوول کے میدان میں انگلینڈ کو چت کرنا اور پھر انیس سو ستاون میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ میں فتح حاصل کرنا یہ سب مرحوم اے ایچ کاردار کی کپتانی میں ہوا ہے اگر پاکستان ابتدائی دور میں کامیابیاں حاصل نہ کرتا تو کھیل کو فروغ ملتا؟؟؟؟
اے ایچ کاردار مرحوم نے ایک کپتان کی حیثیت سے کامیابیاں سمیٹنے کے بعد ایک منتظم کی حیثیت سے بھی کھیل کی خدمت کی ان کے لگائے پودے کا پھل آج سب کھا رہے ہیں۔ یہ مرحوم کاردار کی کامیاب منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ ہے کہ کرکٹرز کی معاشی حالت بہتر ہوئی اور اسے پیشے کے طور پر اپنایا گیا۔ کرکٹرز پیسہ کمانے کے لیے کرکٹ کھیلنے آتے ہیں ابتدائی سطح پر اسمیں ملک کی خدمت کا جذبہ کہیں بہت پیچھے ہوتا ہے۔ بعض تو ساری عمر پیسے کمانے کی مشین بنے رہتے ہیں۔دولت و شہرت حاصل کرنے کا شوق نوجوانوں کو کرکٹر بناتا ہے۔ کھیل میں نوجوانوں کی دلچسپی اے ایچ کاردار کے وژن سے ممکن ہوئی ہے۔ جہاں تک تعلق عمران خان کا ہے۔ ایک کھلاڑی، کپتان کی حیثیت سے انکی خدمات پر دوسری رائے نہیں ہے۔ انکی فکر ملک سے محبت،جوش و جذبہ،کھیل کی سمجھ، خیالات کے اظہار، ٹیلنٹ کو نکھارنا، نوجوانوں کو مواقع دینا، باصلاحیت پلیئرز کے لیے دو ٹوک موقف اپنانا، تجربہ منتقل کرنا، کرکٹ کو گلیمرائز کرنا، نئے رجحانات متعارف کروانا ان سب کاموں میں عمران خان ایک حقیقی قائد کی حیثیت میں نظر آتے ہیں۔ اعداد و شمار میں بھی انہیں مرحوم کاردار پر واضح برتری ہے لیکن پاکستان کرکٹ کو منظم کرنے اسے مقبول بنانے کھلاڑیوں کی فلاح کے لیے کام کرنے میں وہ کسی طور بھی کاردار سے آگے نہیں ہیں۔ کرکٹ کے انتظامی امور میں عمران خان نے کبھی کام نہیں کیا۔ وہ آئے کھیلے، کھیلتے رہے اور چلے گئے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں کاردار خود بھی کھیلے اور ہزاروں کھیلنے والوں کے لیے کھیل کے مواقع بھی پیدا کیے۔ اے ایچ کاردار نے پاکستان کرکٹ کو ایک نیا نظام دیا جبکہ جس ریجنل کرکٹ کا ذکر عمران خان اور انکے ہمخیال کرتے ہیں اسکے لیے کبھی برطانیہ کی بات کی جاتی ہے تو کبھی آسٹریلیا کی مثال دی جاتی ہے تو کبھی کسی اور ملک کا ذکر کیا جاتا ہے کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ان ملکوں میں تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی کتنی اہمیت ہے اور انکے سرکاری ادارے کتنے شفاف انداز میں کام کرتے ہیں اور یہی کام کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے کیا ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ احسان مانی عمران خان کو کرکٹ کی سمجھ بوجھ کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے بجائے اپنے اصل کام پر توجہ دیں۔وزیراعظم کے ساتھ بحث کریں دلائل دیں۔ پاکستان کرکٹ کے لیے جو بہتر ہے انہیں اس پر قائل کرنے کی کوشش کریں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024