تحریک انصاف سے عوامی توقعات
تحریک انصاف حکومت کا آغاز عملی طور پر 20 اگست سے ہوا ہے وزیراعظم عمران خان نے عوام کو جومنشور دیا ہے اس میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف حکومت 100 دن میں اپنی کارکردگی شو کرے گی۔منشور کا یہ وعدہ بالکل بے بنیاد لگتا ہے جو کسی طور پر قابل یقین نہیں ہے ۔20 کروڑ آبادی پر مشتمل اور پھر صوبوں کی حکومتیں بیورو کریسی ،فنانشل مسائل کرپشن کا کھوج لگانا ،کرپشن پر قابو پانا ۔کرپٹ لوگوں کے خلاف عملی اقدام کرنا پولیس اور دیگر اداروں کو اصلاح ،فوج کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا،دفاعی ضروریات کو سمیٹنا اور اس کیلئے فوج کی اعلٰی قیادت سے مشاورت کا عمل عدلیہ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانا۔عدلیہ میں موجودہ کیسز کے بارے میں اعلٰی عدلیہ کے موقف سے واقفیت حاصل کرنا۔پاکستان میں موجود تقریباً 40 کے قریب بڑے بڑے اداروں کے بارے میں مکمل آگہی حاصل کرنا۔میرٹ پر اداروں کے سربراہوں کا تقرر،معاشی لحاظ سے ملکی حالات کو سمجھنا اور اس کیلئے کوشش کرنا خالی خزانے کی وجہ مہنگائی کا طوفان برپا ہونا اور اس پر کنٹرول کرنا ور سینکڑوں معاملات کو سمجھنے کیلئے 100 دن بہت کم ہیں بلکہ 365 دن ہونے ضروری ہیں جذباتی تقریریں کرکے ایسے وعدے کرنا جن کو پورا کرنا حکومت کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہو اسطرح حکومتیں میرٹ میں ہی عوامی اعتماد کھو بیٹھتی ہیں تحریک انصاف کی حکومت اور قیادت کو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔حالانکہ ان دونوں حکومتوں میں تجربہ کار لوگ موجود تھے ۔جبکہ تحریک انصاف کی حکومت میں جنون تک بہت کچھ ہے تجربہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے ضروری نہیں ہے کہ ہر تجربہ کار آدمی کرپٹ ہو۔یہ ہماری غلط فہمی ہے کسی حکومت کے بہتر نظم و نسق اور مستقبل بنیادوں پر کامیابی کیلئے بلاشبہ تجربے کی ضرورت پڑتی ہے بحر حال ہم حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ جذبات کے بجائے ہوش سے کام لے اپنے ارکان اسمبلی کی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے ایسے فیصلے نہ کرے جن سے حکومت کو شرمندگی اٹھانی پڑے چند دن قبل انسپکٹر جنرل اسلام آباد کا تبادلہ حکومت کیلئے شرمندگی کا باعث بنا وزیراعظم عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اعظم سواتی اور آئی جی کو اپنے پاس بلاتے دونوں کا موقف معلوم کرتے اور پھر کوئی فیصلہ کرتے لیکن اعلٰی عدلیہ میں حکومت کو سبکی نہ ہوتی اسی طرح کے بے شمار فیصلے موجود ہیں جو حکومت نے جذبات میں آکر کئے ہیں جن کو بعد میں واپس لینا پڑا اور عوام کے سامنے شرمندگی بھی اٹھانا پڑی۔اب حکومت اور اعلٰی قیادت کو چاہیے کہ وہ باہمی مشاورت سے فیصلے کریں وزراء اطلاعات کا طریقہ کار میری نظر میں بہتر نہیں ہے پنجاب کے وزیر اطلاعات حد سے زیادہ چالاک نظر آتے ہیں ان کے اس رویے کی وجہ سے بھی حکومت کو دو دفعہ شرمندگی اٹھانی پڑی ہے مرکزی وزیراطلاعات فواد چودھری عدلیہ کے فیصلوں کے بارے میں قبل از وقت اعلان کردیتے ہیں اس سے بھی تحریک انصاف کی حکومت کے لئے اچھا نہیں ہے ان باتوں سے عدلیہ کے بارے میں عوام کے اندر ایک شک پیدا ہوتا ہے ان کو اگر اخبار نویس پوچھیں بھی تو ان کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ یہ عدلیہ کا کام ہے جو عدلیہ فیصلہ کرے گی حکومت اس کا احترام کرے گی ۔ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے بھی التماس ہے کہ وہ حکومت کو کام کرنے دیں۔20 کروڑ کی آبادی ہے اور میں راتوں رات اس طرح تبدیلیاں نہیں آتیں بلکہ ان کو سمجھنے اور جانچنے کیلئے اور ملک کی ایک مثبت سمت پر چلانے کیلئے کم ازکم ایک سال کی ضرورت ہے جس طرح ملکی خزانے کو بے دردی سے لوٹا گیا ہے سابقہ حکومتوں کی شاہ خرچیوں نے اور کرپشن نے ملک کو کھوکھلا کردیا ایسی حکومت کو ہرشعبے میں سنبھلنے کیلئے ایک وقت دیں اگر اپوزیشن لیڈر عوام کے خیر خواہ ہیں اس ملک کی بہتری چاہتے ہیں اس ملک کے عوام کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو خداراہ حکومت کو کم از کم ایک سال چلنے دیں۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ادارے اور حکومتیں اس وقت تباہ ہوتے ہیں جب ان کو چلانے والے یا تو نااہل ہوتے ہیں یا بدنیت ۔اس لئے اگر خدانخواستہ آپ کو عوام نے ووٹ کے ذریعے مسترد کردیا ہے تو برسراقتدار حکومت مثبت اور بہتر تجاویز دیں اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تاکہ آئندہ کیلئے آپ کو عوام کو اپنا چہرہ دکھانے کے قابل ہوسکیں ۔