ریاست مدینہ فکر ولی اللہی کی روشنی میں
الحمد للہ! پاکستانی سیاست میں ریاست مدینہ کا تذکرہ اہل تقویٰ اور صالحین کے لئے باعث اطمینان ہے۔ آج ماشاء اللہ ’’ریاست مدینہ‘‘ بار بار زیر بحث آ رہی ہے۔ اہل علم اور اہل قلم بھی تحریر اور گفتار سے ریاست مدینہ کے حوالے سے قوم کی راہنمائی فرما رہے ہیں۔ میں اس صورتحال پر بہت خوش اور مطمئن ہوں اور ریاست مدینہ کا سیاسی تذکرہ جتنا ہو چکا اس کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو دیتا ہوں اگر وہ اپنی سیاست میں ریاست مدینہ ماڈل کو اپنانے کا اصرار نہ کرتے تو ہمارے ہاں ریاست مدینہ کے حسین ترین انسانی تصورات اور سماجی اعمال و افعال کا تذکرہ ممکن نہ ہوتا۔ الحمد للہ درس نظامی کی مکمل تعلیم اور عربی زبان و ادب سے عہد جوانی کے گہرے تعلق کے باعث کچھ منطق اور فلسفہ کی اہمیت و فوائد کے ادراک کی بدولت مجھے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ یکتا روزگار اور منفرد امام وقت دکھائی دیتے ہیں جو اسرار ذات رسولؐ‘ دین اسلام‘ فقہاء و محدثین کے ذریعے امت محمدیہؐ کو ملے‘ علوم و فنون کو اپنے اندر یوں جمع کئے ہوئے ہیں کہ اختلاف کی جگہ اتفاق و تطبیق جبکہ تخریب کی جگہ ’’نئی مفکرانہ تعمیر‘‘ کرتے نظر آتے ہیں۔ یوں ہم انہیں برصغیر سے اٹھنے والا وہ مجدد مسلمان سماجی منفرد امام انقلاب کہہ سکتے ہیں جس کے فکر کے سامنے ایک صدی بعد سامنے آنے والے سرمایہ دارانہ نظام جو 1776 میں سوچا گیا اور 1799 میں نافذ ہوا اور کارل مارکس کا معاشی نظریہ جو 1866 میں کتابی صورت میں لکھا گیا اور سوشلزم کی صورت میں 1917 میں بطور نظام نافذ ہوا تھا یہ سب فکر ولی اللہ محدث دہلویؒ کے سامنے ناتمام‘ نامکمل اور حقیر سی کاوشیں ہیں جو نظام حیات بن کر ہر ملک میں اب ظلم و استبداد کا جابرانہ ماحول تخلیق کر چکی ہیں۔ شاہ ولی اللہ کارل مارکس سے ایک صدی پہلے کی شخصیت ہیں۔ جوں جوں میں نے فکر ولی اللہی کا مطالعہ و استدراک کیا توں توں مجھے علمائے پاکستان میں نابغہ روزگار اور عقبری فہم سے مزین حنفی مفتی عبد الخالق آزاد مسند نشین خانقاہ رحیمیہ 33-A شارع فاطمہ لاہور سے اکتساب کا شوق میسر آیا۔ ان سے ملاقاتیں‘ گفتگو اور بحث و تمحیص اکثر ہوتی رہتی ہے۔ ماشاء اللہ مفتی عبد الخالق خالص فکری سرچشمہ قرآن و سنت نبویؐ ہیں جو ریاست مدینہ کے انسانی ارتقاء کو آسان ترین فہم عطا کرتے ہیں۔ 4 اکتوبر کو اسلامی یونیورسٹی فیصل مسجد کمپلیکس کے قائداعظم آڈیٹوریم میں انہوں نے ’’سماجی تشکیل کے عصری تقاضے اور ریاست مدینہ‘‘ کے موضوع پر ہونے والے سیمینار میں مفکرانہ‘ مدبرانہ‘ انقلابی قرآنی تبدیلی کا راستہ ذات رسولؐ‘ فکر رسولؐ‘ عمل و اسوہ حسنہ رسولؐ سے تجویز کیا۔ دو گھنٹوں پر محیط اپنے خطاب میں انہوں نے کسی بھی ریاست میں تشکیل پاتے سماج اور معاشرے کو چار اصولوں میں محدود کیا ہے۔ (1) داخلی اور خارجی امور میں تمام فیصلے آزادانہ اور خود مختارانہ طورپر ہوں اور پوری طرح سوچ سمجھ کر ہوں۔ (2) عدل و انصاف بلاتفریق دین و مذہب و رنگ و نسل ’’مساوات‘‘ کی بنیاد پر ہو یعنی انسانیت کو عدل و انصاف میسر ہو کسی خاص گروہ یا دین و مذہب کو نہیں۔ (3) امن و امان میں داخلی سیکورٹی اور خارجی سیکورٹی عسکری انداز میں میسر ہو اور نافذ بھی ہو‘ یعنی فوج ریاست کی مکمل محافط ہو اور ہر فتنے و فساد کو کچلنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ (4) معاشی خوشحالی کا نظام متعارف و نافذ کرانے کی استعداد اور اہلیت ہو۔
یہی چار بنیادی اصول جو عملاً محض صرف اسلامی‘ دینی‘ مذہبی نہیں بلکہ اس سے مستزاد انسانی عظمت کو اور انسانی ارتقاً کو بھی محیط ہیں جو بھی معاشرہ و سماج اس کو اپنائے گا اسے عروج و ارتقاء ملے گا بے شک وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ ریاست مدینہ کا وجود‘ سماج و معاشرہ مدینہ کی تشکیل و تنفیذ اور فلاحی ریاست کا تصور انہی اصولوں پر اساسی طورپر مشتمل ہے۔ نظام ریاست مدینہ بنیادی طورپر ’’اخلاقی‘‘ اصولوں اور ان کی سخت ترین تربیت پر مشتمل ہے نہ کہ سزاؤں کے سفاکانہ تصور کی بنیاد پر۔ عفو و درگذر بھی ایک اہم پہلو ہے ریاست مدینہ کا۔ جنابؐ رحمت اللعالمین اور محسنؐ انسانیت کی اخلاقی زندگی اور تربیت کا یہ لازمی عنصر ہے کیونکہ ان اخلاقی ضوابط سے انحراف ناقابل معافی ہے ورنہ نظام ریاست ختم ہو سکتا ہے۔ ریاست مدینہ جنگی کاوشوں کا ثمر ہر گز نہیں بلکہ ’’مکالمے‘‘ پر مبنی عمرانی معاہدوں سے جنم لیتی دوسرے ادیان و مذاہب کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں کو فروغ دیتی ریاست ہے۔ وہ قبائل جو یثرب سے مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ میں آتے رہے ان سے مکالمہ جاری رہا۔ انہی سے ہجرت سے پہلے عمرانی و تہذیبی و سماجی و سیاسی ’’معاہدہ‘‘ جو ہوا اسی کی بنیاد پر پرامن طورپر‘ بلکہ انصاران مدینہ کی خواہش پر ’’ہجرت‘‘ نبویؐ ہوئی۔ ہجرت کے بعد یثرب میں جو بھی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی۔ یثرب کا ’’مدینہ‘‘ بننا‘ آپس میں لڑتے رہنے والے قبائل میں پرامن رہنے کے لئے معاہدات کا ہونا‘ پھر یہودیوں سے جو طاقتور جاگیردار طبقہ تھے سے میثاق مدینہ کا ہونا۔ یہ سب کچھ‘ صرف سماجی و عمرانی معاہدات سے مکمل ہوا تھا جنگ و جدل سے نہیں۔ یوں ریاست مدینہ محض مسلمان افراد و قبائل پر مبنی نہ تھی بلکہ دوسرے ادیان پر مبنی ریاست بھی تھی۔ یہودیوں سمیت غیر مسلمان قبائل کو وہی عادلانہ سماجی نظام‘ معاشی و سیاسی و تہذیبی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو تھے لہذا ریاست مدینہ میں تمام تر توجہ ’’عمرانی معاہدوں‘‘ پر مبنی سماج و معاشرہ کی تاسیس و تشکیل و ارتقاء پر مبذول تھی۔ معاشی نظام میں ’’خود انحصاری‘‘ کا اہم پہلو معاشی ارتقاء کا نام ہے۔ کسی دوسری قوم سے یا ریاست سے ’’قرض‘‘ لیکر معاشی حالات درست نہیں کئے گئے تھے بلکہ خود رزق کمانے کی ترغیب دی گئی اور جو کچھ بھی میسر تھا اسی میں زندگی گزارنے کی نصیحت و درس دیا گیا تھا اگر قرضوں پر مبنی معیشت کو اپنایا جائے گا تو وہ ریاست و سماج اپنے پاؤں پر کبھی بھی نہیں کھڑا ہو سکے گا۔ خود انحصاری کا بنیادی تقاضا ہے کہ جو کچھ بھی اپنے وسائل ہیں صرف انہی پر انحصار اور اپنے ہی ہاتھوں سے نئے معاشی وسائل کی تخلیق و دریافت کی جائے نہ کہ اغیار سے قرضے لئے جائیں۔ یہ تو قوم کو اور ریاست کو ’’رہن‘‘ رکھ دینے کا راستہ ہے جس سے قومی خود مختاری اور قومی آزادی سلب ہو جاتی ہے صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص کرنے کی بجائے ریاست مدینہ کو اگر انسانی فلاح و بہبود کی ریاست کہا جائے تو یہ زیادہ درست ہے کیونکہ عام تصور یہ ہے کہ ریاست مدینہ محض مسلمانوں کے لئے ریاست تھی عملاً ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ’’عدل‘‘ جو ریاست کا اہم حصہ اور انعام ہے آسانی سے ہر مدنی یہودی کو بھی استحقاق کی بنیاد پر مل جاتا تھا اور مسلمان کو محروم کر دیا جاتا تھا اسی لئے تو حضرت عمرؓ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا جس کے مقدمے میں آپؐ نے فیصلہ مسلمان کی بجائے یہودی کے حق میں اس کے استحقاق کی بنیاد پر دیا تھا۔ میرے سامنے مفتی عبد الخالق نے گفتگو کرتے ہوئے بلاتفریق دین و مذہب و رنگ و نسل عدل کی فراہمی پر بہت زیادہ زور دیا تو پھر میں نے تنہائی کی گفتگو میں جرات کر کے پوچھ لیا کہ کیا ہمارے قوانین توہین رسالت سچ مچ انہی سچے اصولوں اور ضوابط پر مبنی ہیں جو ذات رسولؐ‘ اسوہ و عمل رسولؐ‘ عمل صحابہؓ سے ماخوذ ہونے چاہیں؟ مفتی عبد الخالق نے نہایت سنجیدگی سے مجھے پوچھا آپؐ کا آسیہ کے حوالے سے آنے والے سپریم کورٹ فیصلے کے بارے میں کیا نقطہ نظر ہے؟ میں نے چونکہ اس موضوع پر کافی تحقیق کر رکھی ہے لہذا کہہ دیا میرے مطالعے اور تحقیق میں ہمارے توہین رسالت قوانین محض ابن تیمیہؒ کے استدلال فکر پر مبنی ہیں اور میں اس معاملے میں ابن تیمیہؒ کو اسوہ رسولؐ کی بجائے جذباتیت سے زیادہ قریب دیکھتا ہوں حالانکہ تین افراد کو جن کے قتل کا حکم خود آپؐ نے صادر فرمایا تھا۔ (1) عکرمہ بن ابی جھل‘ جن کی سفارش خالدؓ بن ولید نے کی۔ (2) عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح‘ جن کی سفارش عثمان غنیؓ نے کی۔ (3) شاعر کعب بن زہیر بن ابی سُلمیٰ۔ حضرت خالدؓ بن ولید اور حضرت عثمانؓ غنی کی سفارش پر معاف کر کے ان کا اسلام قبول کیا اور جبکہ شاعر کعب نے خود پیش ہو کر معافی مانگی تو آپؐ نے اسے بھی معاف کر کے قتل کی سزا منسوخ کر دی تھی۔ مفتی عبد الخالق نے میرے موقف کو تسلیم کیا اور سپریم کورٹ سے آسیہ کے حق میں فیصلے کو اسلامی عدل اور ریاست مدینہ کے نظام عدل کی روشنی میں درست کہا اور یہ بھی کہ ہمارے دیوبندی و بریلوی علمائے کرام فقہہ حنفی کے مقلد ہیں جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ توہین رسالت میں قتل کو بطور سزا سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہاں تعزیر کے طورپر ریاست سزا دے سکتی ہے اور وہ بھی چند سال کی قید ہو سکتی ہے قتل تو ہر گز نہیں۔ مفتی عبد اخالق نے کہا آسیہ فیصلے کے حوالے سے جو بھی فتنہ و فساد کیا گیا‘ توڑ پھوڑ‘ املاک کو نقصان اور کچھ معصوم لوگ فسادیوں کے سبب زندگی سے محروم کر دئیے گئے یہ سب عمل غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے اگر دیوبندی و بریلوی علمائے کرام کو اصرار ہے کہ موجودہ قانون توہین رسالت میں دی گئی سزا ہی اسلامی قانون ہے تو انہیں سب سے پہلے امام ابو حنیفہؓ سے لاتعلق ہو کر ابن تیمیہؒ کو اپنا امام تسلیم کرنے کا اعلان کرنا چاہئے پھر ابن تیمیہ کے فکر پر مبنی پورے فقہی نظام کو بھی قبول کرنا چاہئے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ’’جبر‘‘ پر مبنی ابن تیمیہ کے غلط فکر کو تسلیم کرنے پر اصرار کیا جائے مگر دیگر امور میں فکر ابن تیمیہ سے لاتعلقی اپنائی جائے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ مفتی عبد الخالق نے درپیش مسئلہ میں پوری ذمہ داری سے وضاحت کر کے مجھے مطمئن کر دیا۔ جب میں نے ان سے آسیہ کے حق میں آنے والے فیصلے کے خلاف احتجاجی دھرنوں میں سپریم کورٹ کے ججوں کے قتل اور فوج میں بغاوت پر اکسانے والے نام نہاد علماء کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ایسے افراد کو عالم دین تسلیم کرنے سے ہی دوٹوک انکار کر دیا بلکہ کہا کہ عقل سلیم نام کی چیز بھی ان کے پاس نہیں ہے لہذا ان کا عمل ریاست میں صرف فتنہ و فساد اور بغاوت کا نام ہے۔ چہ جائیکہ اسے اخلاق نبویؐ سے ذرا سی بھی نسبت تسلیم کیا جائے۔ کیا مشائخ عظام اور علمائے کرام اور مولانا فضل الرحمن اپنے حنفی مفتی کے موقف پر غور کرنا پسند فرمائیں گے؟وضاحت: ’’عاصیہ‘‘ اور ’’آسیہ‘‘ کے الفاظ میں فرق یہ ہے کہ عاصیہ کا معنی گہنہ گار ہے مگر اس لفظ کا استعمال عربی میں بطور اسم (نام) نہیں ہوتا جبکہ ’’آسیہ‘‘ کا لفظ صحیح ہے اور عربی میں یہی لفظ نام (اسم) کے طورپر استعمال ہوتا ہے چونکہ تحریک لبیک اور حکومت کے تحریری معاہدے میں لفظ ’’عاصیہ‘‘ استعمال ہوا ہے آسیہ نہیں لہذا شرعی‘ قانونی‘ سماجی‘ سیاسی طورپر اس معاہدے کی سرے سے اہمیت ہی موجود نہیں ہے۔