ایک خاشقجی اور 82 بچے

دنیا کی بے حسی، بے ضمیری اور کسی حد تک بے حمیتی کی کئی داستانیں تاریخ کے اوراق پر رقم ہیںجن میں طاقتوروں نے اپنے اپنے مفادات کیلئے کسی طرح رنگ، نسل، مذہب اور فرقوںکا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ انسانی تاریخ میں بربریت کی وہ عظیم داستانیںہیں کہ چشم فلک نے نہ دیکھی نہ پہلے سنی ہے۔ انسان صرف اپنی حکمرانی اور دولت کیلئے ہر وہ قدم اٹھایاکہ ر ہے نام اللہ کا اور اسکے درمیان جوبھی آیاوہ نشانِ عبرت بن گیا۔دنیا کی ترقی علم کے اضافے، وسائل کی فراوانی اور ذرائع کی موجودگی کے بعداب یہ یقین ہوچلاتھا کہ انسان اس صدی میںایک بہترمخلوق بن کے ابھرے گا۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان والی بربریت ہٹلر والی سوچ اب لوگوں کی سوچ کے ساتھ بدل جائیں گے۔ اب یہ چشم گناہگار رینگتے، غربت کے ستائے، فاقوںکے مارے انسان نہیں دیکھیں گی۔ اب کوئی ایتھوپیا ، روانڈا یابنگال والی فاقہ زدی کہیں نہیں آ سکتی کیونکہ اب دنیاکی 10 بڑی کمپنیاں کل دولت کا تقریباً25%رکھتی ہیںاور 3000/- بلین ڈالر سے زیادہ کی یہ دس کمپنیاں ہی کیا ایک کمپنی کہیں بھی قحط زدہ حالات پر قابو پانے کیلئے کافی ہے۔مگر پھر اسی چشمِ نم نے یمن پر چڑھتے سعودی، امریکی اور برطانوی جہاز دیکھے جنہوں نے پتھر اور مٹی کے گھروندوں کو گرانے کیلئے جانے کتنے سو بلین ڈالرپھونک دئے اور اسی آنکھ نے یمن کے 130 ملین لوگوںکو بھوک اور موت کے بیچ میں سسکتے دیکھا۔ ان بیچاروں کا اب یہ عالم ہے کہ ان کے پاس قحط سے مرجانے والوں کی لاشیں اٹھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔
گھمنڈ طاقت و دولت کا بہیمانہ استعمال ایک مسلمان ملک کا دوسرے مسلمان ملک کے لئے ایک شرمناک فعل ہے۔ کاش کہ ایم بی ایس جان سکتا کہ قبرستان ایسے لاکھوں انسانوں سے بھرے ہوئے ہیںجن کا خیال تھا کہ وہ ظلم و طاقت سے دنیا کو بدل کر رکھ دیں گے اور دنیا میںخدا بننے کے خواہشمندتھے ظلم صرف اسلئے کہ ایران حوثیوں کو سپورٹ کرتا ہے اسکی سزا 130ملین لوگوں کی دی جارہی ہے یا یہ کہ عرب ا سپرنگ سے گھبرائے سعودی اور اماراتی ممالک وہاںپر ہونے والی تبدیلیوں سے ڈرتے ہیں۔ علی عبداللہ صالح نے 32 سال یمن پرحکمرانی کی اور دیگر عرب ملم ممالک کی طرح اپنی عوام کو فکرو فاقہ کے علاوہ کچھ بھی نہ دے پایا 2010 کے عرب ا سپرنگ سے یمن میں بھی حالات بدلے 2012 میں صالح سے ابومنصور ہادی نے حکمرانی سنبھال لی مگر اس وقت تک حالات قابو سے نکل چکے تھے۔ ایران نے بھی اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور حوثیوں کو مظبوط کیا۔ دوسری طرف خلیجی ممالک اور سعودی عرب نے ایران کا اثرکم کرنے کیلئے یمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جسکا بھرپور ساتھ بہت سے مشرقی اور مغربی ممالک نے دیا ۔امریکہ اور روس کی پراکسی وارکے مضر اثرات سے دنیا نے کافی نقصان اٹھایا اب سعودی عرب اور ایران کو چاہیے کے اس کام سے دور رہیںجیسا کہ شام، عراق کی جنگ میں ایران نے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے بڑے ، چھوٹے، بچے ، بوڑھے مرد و زن کسی قسم کی تمیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ظلم و ستم کا بازار خوب گرم کیا۔ کاش کوئی ایم بی ایس کو یہ بھی بتائے کہ 500, 500 ملین کے میزائل گرانے کی بجائے اگر وہ یمن میں اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، کارخانے لگوا دیتا تو اسے کسی حوثی ، ایرانی اور القاعدہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی امریکہ سے480بلین ڈالر کا اسلحہ لینا پڑتا۔ خرچہ تو آپ نے کرنا ہوتا ہے اب آپ کی فہم ہے کہ کس مد میں اور کس وقت میں کرتے ہیں ورنہ ایک صحافی کا قتل چھپانے کیلئے جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیںآج طاقت کے نشے میں چور ایم بی ایس امریکہ، برطانیہ اور اسکے حواری یمن کوتباہ و برباد کر دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ حالانکہ خود امریکہ پچھلے 17 سال سے افغانستان اور اس سے پہلے ویت نام میں ذلیل ہوچکا ہے ۔
یمن کے یہ حالات تو شائد ہم جیسے کئی نام نہاد عاشقانِ اسلام کو پتہ بھی نہ چلتے اگر امریکی اخبار جمال خاشقجی کے قتل کا اتنا واویلا نہ مچاتا۔ یہاںانٹرنیشنل میڈیا کی بے حسی بھی قابل دید ہے۔ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے مر جانے کی کوئی خبر کسی بڑے چھوٹے چینل نے نہ چلائی تھی نہ چلائی ایک مثال MSNBC چینل کی لے لیں جسکی پورے ایک سال کی نشریات میں یمن کوصرف تین منٹ سات سیکنڈ ملے جسکی وجہ وہ 480 بلین ڈالر کی پٹی ہے جو میڈیا اور ٹرمپ سب کی آنکھوں پر چڑھی ہوئی ہے۔ ہسپتالوں پر فضائی حملے اور تو اوراسکول جاتے ہوئے وہ معصوم بچے جو ایکدوسرے سے خوش گپیوں میں اور قہقوں میں مصروف تھے ان پر فضائی حملہ بھی Fox News, CNBC, BBC, CNN کا کچھ نہ بگاڑ سکا نہ ہی پانچ سالہ عمارہ کی وہ تصویر جس میں بھوک اور فاقوںکی وجہ سے اسکے جسم کی تمام ہڈیاں با آسانی گنی جا سکتی ہیں اور وہ یاس و نا امیدی سے کیمرے کو ٹکٹکی باندھ کے دیکھ رہی ہے نے انکا ضمیر جگایا ہمارے میڈیا کا تو نام ہی نہ لیں یہ تو بھلا ہواس سمجھدار ایجنٹ کا جس نے خاشقجی کو انقرہ میں بلا کر اسکے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور پھر بھلا ہو رجب طیب اردوغان کاجس نے امریکہ اور سعودی عرب کو دبانے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اور سب سے زیادہ جمال خاشقجی کا بھلا ہو جو Washington Post کا صحافی تھا ورنہ ان 82 ہنستے کھیلتے سکول جاتے بچوں کو کون جانتا تھا۔۔۔!!افغانستان، عراق، شام ہمارے سامنے مثالیں ہیںجنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیںہوتاایم بی ایس جتنا جلدی سمجھ جائے اسکے لئے اور سعودی عرب کے لئے اچھا ہے ورنہ کچھ عجب نہیں کہ تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک اپنی دولت کے انبار امریکہ، جرمنی، فرانس کے اسلحہ کارخانوں میں جھونک دیں اور جب طاقت کا نشہ اترے تو خودکسی گڑھے میں (صدام حسین کی طرح پائیں)
تاریخ بے حد ظالم ہوتی ہے۔ اگر ظلم کرو گے تونشانِ عبرت بن جائو گے۔بقول غالب؎
بک رہا ہوںجنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی