وزیراعظم عمران کا ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑ دینے اور کسی بھی سازش کو خاطر میں نہ لانے کا عندیہ
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نے ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑ دیا‘ اسی وجہ سے ’’سٹیٹس کو‘‘ والی قوتیں پوری طاقت کے ساتھ حکومت کے تبدیلی کے ایجنڈے میں روڑے اٹکاتی نظر آتی ہیں مگر سازشیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پی کے محمود خان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے باور کرایا کہ بناوٹی سیاسی طاقتیں جلد دم توڑ جائیں گی۔ وزیراعظم کے ساتھ وزیراعلیٰ خیبر پی کے کی ملاقات کے دوران امن و امان‘ طرز حکمرانی‘ نئے اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلہ میں پیش رفت‘ 100 روزہ پلان اور دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے اس موقع پر کے پی کے حکومت کے اقدامات کو سراہا اور کہا کہ ہمارا ایجنڈا قومی تعمیر و ترقی اور ملک کو بحرانوں سے نکال کر اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں کمزور اور لاغر ’’سٹیٹس کو‘‘ کی کوئی پرواہ ہے نہ ہم سازشوں کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔ یہ قوتیں عوام میں پہلے ہی اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔ وزیراعلیٰ محمود خان نے اس موقع پر وزیراعظم کو اپنی حکومت کے ترقیاتی کاموں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ خیبر پی کے حکومت وزیراعظم کے وژن اور سوچ کے مطابق شفاف حکمرانی اور غریب عوام کی فلاح کیلئے صحیح سمت میں اقدامات اٹھا رہی ہے اور ہمارا 100 روزہ پلان بھی حقیقی معنوں میں بہتر طرز حکمرانی اور غریب کی فلاح کا آئینہ دار ہوگا۔ انکے بقول کے پی کے حکومت نے میرٹ اور انصاف سمیت لوگوں کے بنیادی مسائل کا تعین کرنے‘ صوبے میں وسائل کے بے دریغ استعمال کو روکنے اور بہتر حکمرانی کیلئے بنیادی نوعیت کے اقدامات اٹھائے ہیں جبکہ صوبے میں جاری ترقیاتی کاموں کی تکمیل کو ترجیح دی گئی ہے۔
جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے برسر اقتدار آنے کے بعد عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنی حکومت کی پہلے سو دن کی جن ترجیحات کا تعین کیا ان پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کی صورت میں فی الواقع قائداعظم کی امنگوں‘ آدرشوں کے مطابق اس ملک خداداد کے جدید اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کے قالب میں ڈھلنے اور عمران خان کے ریاست مدینہ کے خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے کے آثار اور ٹھوس شواہد نظر آنے لگے تھے۔ اب چونکہ پی ٹی آئی کے اقتدار کے تین ماہ مکمل ہونیوالے ہیں اور پہلے سو دن کی متعین اور اعلان کردہ ترجیحات کی جانب خاصی پیش رفت کی جاچکی ہے اس لئے پی ٹی آئی حکومت کے ناقدین کو ان حکومتی ترجیحات کی بنیاد پر اب تک ہونیوالے کاموں کا جائزہ لینے اور ان میں کوئی خامی یا جھول نظر آنے پر امور حکومت پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ تنقید اصلاحی نکتۂ نظر سے ہو تو اسے حکومت کیخلاف کسی سازش سے تعبیر کرنے کے بجائے ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے جن کی حکومتی مخالفین کی جانب سے نشاندہی کی جارہی ہو۔ اس سے جہاں امور حکومت پر تنقید کی گنجائش ختم ہوتی ہے‘ وہیں اپنے بڑھتے مسائل کی بنیاد پر عوام میں پیدا ہونیوالے اضطراب کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملتی ہے‘ تاہم پی ٹی آئی کے حکومتی اور پارٹی عہدیداروں کی جانب سے بالخصوص اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران اور ارکان کے ساتھ جارحانہ انداز اختیار کرنے اور ان پر لٹھ لے کر چڑھ دوڑنے کا طرز عمل اختیار کرکے دانستہ یا نادانستہ طور پر سیاسی فضا میں کشیدگی پیدا کرنے کی زیادہ گنجائش نکالی گئی ہے۔ اسکے باوجود اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں کی جانب سے حکمران پی ٹی آئی کو اب تک یہی پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ حکومت کو گرانے پر منتج ہونیوالی تحریک چلانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں اور نہ ہی جمہوری نظام کو لرزہ براندام کرنا انکے کسی ایجنڈے میں شامل ہے۔ اس تناظر میں اپوزیشن کی سیاست کو حکومت کیخلاف کسی سازش سے تعبیر کرنا مناسب نظر نہیں آتا۔
اس وقت اپوزیشن کی جانب سے جن حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر سب سے زیادہ احتجاج اور تنقید کی جارہی ہے‘ وہ احتساب کے عمل کے حوالے سے ہیںجس کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران اور ارکان پارلیمنٹ کا بنیادی شکوہ یہی ہے کہ یہ بے لاگ اور بلاامتیاز ہرگز نہیں جبکہ خود وزیراعظم اور انکی کابینہ کے ارکان انکے بارے میں بات کرتے ہوئے انہیں چور‘ ڈاکو‘ لٹیرا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو اس سے وہ عدالتی فیصلے کے بغیر ہی انہیں مجرم گردانتے نظر آتے ہیں۔ بے شک احتساب پی ٹی آئی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور یہی نعرہ لگا کر پی ٹی آئی انتخابی عمل میں اتری جسے اسی نعرے کی بنیاد پر عوام نے اقتدار کا مینڈیٹ دیا اس لئے پی ٹی آئی حکومت کو اپنی اس اولین ترجیح کو نتیجہ خیز بنانے اور پایۂ تکمیل کو پہنچانے کے تمام ضروری اقدامات بہرصورت اٹھانے چاہئیں جن میں نیب کی ٹھوس معاونت اور نیب کے مقدمات کی زد میں آنیوالی شخصیات کیخلاف عائد ہونیوالے الزامات کے ٹھوس ثبوتوں کی فراہمی حکومتی پراسیکیوشن ٹیم کی ذمہ داری ہے۔ نیب کے مقدمات جتنی مضبوط بنیادوں پر تیار کئے جائینگے اتنا ہی ان مقدمات کے ذریعہ احتساب کا شکنجہ کسنے میں مدد ملے گی تاہم احتساب کی ساری ذمہ داری نیب اور احتساب عدالتوں کی ہے جو سابق حکمران شریف فیملی کو پہلے ہی ایک ریفرنس میں قید‘ جرمانے اور نااہلیت کی سزا دے چکی ہیں۔ چونکہ احتساب کے اس عمل میں عدالتی کارروائی جاری ہے اس لئے اس کارروائی کے دوران اور فیصلہ صادر ہونے سے پہلے ملزمان کے بارے میں چور‘ ڈاکو جیسے منفی ریمارکس دینا انہیں عدالتی فیصلہ سے پہلے ہی مجرم قرار دینے کے مترادف ہے۔
اپوزیشن کا بنیادی شکوہ یہی ہے کہ احتساب کیلئے صرف اپوزیشن کے ارکان کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور حکمران جماعت کے جن لوگوں کیخلاف تحقیقات شروع کی گئیں‘ انکی فائلیں نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر بند کرکے ان کیلئے احتساب کا عمل روک دیا گیا جبکہ اپوزیشن ارکان کیخلاف خصوصی چابکدستی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل کے نجی ٹی وی چینلز پر انٹرویو دینے اور زیرسماعت ریفرنسوں کی تفصیلات بیان کرنے پر بھی اپوزیشن کیلئے احتجاج کی گنجائش نکلی اور اس پر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے قومی اسمبلی میں بیک آواز احتجاج کیا گیا اور الزام عائد کیا گیا کہ نیب اور حکومت اپوزیشن ارکان کیخلاف انتقامی کارروائیوں کیلئے یکسو ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کے ذریعے ہی عوام میں احتساب کے عمل پر اعتماد کی فضا استوار کی جاسکتی ہے۔ اگر احتساب کے کسی عمل پر سیاسی انتقامی کارروائی کا شائبہ بھی گزرے گا تو اس سے احتساب کے سارے عمل پر حرف آئیگا جبکہ احتساب کے اب تک کے عمل میں جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں انکی بنیاد پر بادی النظر میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت مخالفین کیخلاف انتقامی سیاسی کارروائیوں کے الزامات کی گنجائش نکلتی ہے جسے حکومت کیخلاف کسی سازش سے تعبیر کرنا‘ اپوزیشن کو اپنے خلاف ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
بے شک پی ٹی آئی کا مطمحٔ نظر ملک اور عوام کو ’’سٹیٹس کو‘‘ والے جمہوری اور انتخابی نظام سے نجام دلانا ہے اور اس کیلئے ہی عوام نے عمران خان کے ساتھ توقعات وابستہ کی ہیں‘ تاہم پی ٹی آئی کے اقتدار کے پہلے تین ماہ کے دوران ہی اسکی پالیسیوں اور اقدامات سے جس تیزی کے ساتھ عوام کے غربت‘ مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل بڑھے ہیں اسکے باعث ان میں اضطراب کی فضا استوار ہونا بھی فطری امر ہے اور یہی وہ صورتحال ہے جو منتشر اپوزیشن جماعتوں کو حکومت مخالف تحریک کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو اپنے اقتدار کے حوالے سے یہ حقیقت بہرصورت پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اسے وفاق‘ پنجاب اور بلوچستان میں سنگل مجارٹی پارٹی کی حیثیت سے اقتدار کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہوا اور اسے وفاق اور متعلقہ صوبوں میں اقتدار کیلئے دوسری جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ق) اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالے ارکان کی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا۔ بے شک آزاد ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی اکثریت حکمران پی ٹی آئی میں شامل ہو چکی ہے تاہم ان آزاد پنچھیوں کی کسی پارٹی اور اسکی قیادت کے ساتھ ہرگز کمٹمنٹ نہیں ہوتی اور جب انہیں حکمران جماعت لڑکھڑاتی نظر آتی ہے تو وہ اڑ کر دوسرے گھونسلوں میں جانے میں کوئی دیر نہیں لگاتے۔ ہماری سیاسی تاریخ کے اوراق ایسی بے وفائیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس تناظر میں گزشتہ روز گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کے معاملہ میں جہانگیر ترین سے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور انکی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ کی ملاقات کے موقع پر ہونیوالی گفتگو کی ویڈیو منظرعام پر آئی تو اس سے رائی کے پہاڑ بننے میں بھی کوئی دیر نہیں لگی چنانچہ وزیراعظم عمران خان کو گورنر پنجاب اور جہانگیر ترین کو حکومتی اتحادیوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات فوری طور پر طے کرنے کی ہدایت دینا پڑی۔ یقیناً معاملہ فہمی والی حکمت عملی سے ہی اپوزیشن کے مقابل اپنے لئے محفوظ وکٹ تیار کی جاسکتی ہے اور اس پر اطمینان کے ساتھ کھڑے رہ کر اپنے مخالفین پر پوائنٹ سکورنگ کی جاسکتی ہے تاہم اگر اپنے مخالفین کیلئے ’’کسی کو چھوڑیں گے نہیں‘‘ والی فضا گرمائی جاتی رہے گی تو پھر اپوزیشن کیلئے بھی حکومت مخالف تحریک کیلئے خم ٹھونک کر میدان میں نکل آنے کا موقع پیدا ہوتا رہے گا۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ عزم اپنی جگہ بجا ہے کہ ان کا ایجنڈا قومی تعمیر و ترقی اور ملک کو بحرانوں سے نکال کر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا ہے تاہم یہ ایجنڈا پایۂ تکمیل کو پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ ملک کی سیاسی فضا میں کسی قسم کا ارتعاش پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ بصورت دیگر سسٹم کیخلاف سازشوں کے راستے ہموار ہوتے ہیں تو اس کا حکومت ہی نہیں‘ عوام اور ملک کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔