لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں سموگ بڑھنے کے باعث شہریوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق لاہور میں حد نگاہ 800میٹر ریکارڈ کی گئی ہے فضا میں 80فیصد سموگ اور 20فیصد دھند ہے۔ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں سموگ میں اضافے کا خدشہ ہے۔
کئی برسوں سے گاڑیوں اور ٹرانسپورٹ کے دیگر ذرائع کے فیول ، پٹرول اور ڈیزل وغیرہ کے کثرت سے استعمال کے باعث ماحول کی کثافت اور فضائی آلودگی میں خاصا اضافہ ہوتا جا رہا تھا لیکن اب اس خرابی میں گزشتہ تین سال سے سموگ کے نام سے ایک نیا عنصر شامل ہوگیا ہے جس کی بنیادی وجہ فصلوں کی کٹائی میں مشینوں کا استعمال ہے۔ یہ ہارویسٹر ، چاول (دھان یا مونجی ) کی فصل کے صرف سٹے اتارتے ہیں ، باقی سارا پودا بدستور کھڑا رہتا ہے۔ اسی طرح انہی دنوں گنا کی فصل کے پتے اور کپاس کی باقیات بھی موجود رہتی ہیں ۔ کسان کو مونجی اور کپاس والے کھیت میں گندم بیجنا ہوتی ہے چنانچہ وہ کھیت کی باقیات کو جلا کر ان سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے یہ کام صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ دہلی تک ملحقہ بھارتی علاقوں تک کے کسان ایسا ہی کرتے ہیں ۔ چنانچہ دونوں ملکوں کا ہزاروں مربع کلومیٹر علاقہ ان دنوں سموگ کے عذاب سے دو چار ہوتا ہے۔ اگرچہ پنجاب حکومت نے اس بہت ہی مشکل مسئلے کے حل کے لئے کچھ اقدامات کئے ہیں ۔ یعنی فصلوں دھان ، گنا اور کپاس کی باقیات کو جلانے پر پابندی لگائی ہے۔ لیکن یہ مسئلہ کا مستقل حل نہیں اس لئے کہ ان اقدامات کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ چند سال پہلے تک دھان اور گندم کی باقیات سے پرالی اور توڑی حاصل ہوتی تھی ، جسے مویشیوں کے خشک چارے کے علاوہ کاغذ اور گتا بنانے اور بعض دیگر صنعتی مصارف پیکنگ وغیرہ میں بھی استعمال کر لیا جاتا تھا ۔ اس مسئلے کا حقیقت پسندانہ حل یہ ہے کہ کٹائی کے ایسے طریقے اختیار کئے جائیں کہ باقیات کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو ، علاوہ ازیں اس حوالے سے کوئی فیصلہ یا اقدامات کرتے وقت کاشتکار کی مجبوری کو بھی پیش نظر رکھا جائے ۔ محکمہ زراعت کی تشہیر کے مطابق پرالی کی سبز کھاد بن سکتی ہے لیکن اس کے لئے کم از کم ایک ماہ چاہیے۔جبکہ کاشتکا ر کے پاس اگلی فصل یعنی گندم کی بوائی کے لئے بہ مشکل آٹھ دس دن ہوتے ہیں ۔ مسئلے کے تمام پہلو پیش نظر رکھ کر اقدامات کئے جائیں تو کوششیں نتیجہ خیز ہوں گی۔ ورنہ بھٹے بند کر دینے یا مڈھے جلانے پر پابندی سے سموگ کے مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024