منگل ‘ 4؍ ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 13 ؍ نومبر2018ء
پارکوں اور سڑکوں پر شادی کی تقریبات پر پابندی کا فیصلہ
شاید انتظامیہ کا پیٹ شادی ہالوں پر فی فنکشن 20 ہزار روپے اضافی ٹیکس لگا کر بھرا نہیں تھا اس لئے اب غریبوں کو مزید تنگ کرنے کیلئے ‘ محلوں‘ پارکوں میں شادی بیاہ کا ٹینٹ لگا کر انتظام کرنے پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے تاکہ لوگ مہنگے داموں شادی ہال بک کرانے پر مجبور ہوںاور انتظامی اہلکاروں کے وارے نیارے ہوں۔ جس سے لازمی بات ہے شادی ہال والوں کی روزی پر بھی لات پڑنی تھی۔
اب حکومت کے خزانے میں اس مد میں آمدن میں کمی ہونے لگی تو حکومت نے وصولی بہتر بنانے کیلئے اب گلی‘ سڑکوں اور پارکوں میں شادی بیاہ کی تقریبات پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ غریب لوگوں کو مزید تنگ کیا جائے تاکہ وہ دوبارہ شادی ہالوں کا رخ کریں جہاں پہلے ایک لاکھ میں بک ہونے والا شادی ہال اب ایک لاکھ30 ہزار میں بک ہوتا ہے۔
گویا غریبوں پر 30 ہزار روپے کا اضافی خرچہ ڈالا جا رہا ہے۔ کیا پہلے شادیاں گلی محلوں اور پارکوں میں نہیں ہوتی تھیں؟ خدارا غریبوں پر ترس کھائیں۔ ان کی زندگی مشکل نہ بنائیں۔ اس سے بہتر تو یہ تھا کہ حکمران سیدھے سبھائو شادی بیاہ کی رسومات پر پابندی لگاتے ہوئے مسجد میں نکاح اور گھر میں ولیمہ کا سرکاری حکم جاری کرتے تاکہ شادی بیاہ آسان ہو اور کروڑوں لوگوں کو فائدہ بھی پہنچے۔
٭…٭…٭
میری عمر 20 برس کم کی جائے‘ ہالینڈ میں 69 سالہ شخص کی انوکھی قانونی جنگ
اپنی عمر کم بتانا تو ایک عام بات ہے۔ مرد ہوں یا عورت‘ سب اس معاملے میں ڈنڈی مارنے کے عادی ہیں۔ ماسوائے ان عاشقوں کے جو شادی کیلئے دانستہ اپنی عمر زیادہ لکھواتے ہیں۔ اب ہالینڈ میں اس 69 سالہ شخص نے عدالت میں درخواست دی ہے اس کی عمر 20 سال کم کی جائے۔
معذرت کے ساتھ کہ عورتیں کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں۔ اس خبر کے چھپتے ہی تمام ادھیڑ عمر بوڑھوں اور بوڑھیوں کی نظریں ہالینڈ کی طرف اٹھ گئی ہیں کہ وہاں اس کیس کا فیصلہ کیا آتا ہے کیونکہ کم عمر کہلانے کا خبط ہر ایک کو ہوتا ہے۔ اب اگر 69 سالہ بابا قانونی جنگ جیت بھی لے تو کیا 49 برس کا نظرآئے گا۔ اس کی شکل و صورت اور جسمانی خدوخال خود اس کی چغلی کھا کر بتائیں گے کہ یہ بابا 49 کا نہیں 69 کا ہے۔
ویسے بھی جیسے لاکھ لیپاپوتی کی جائے‘ سکن سرجری کرائی جائے‘ لٹکی ہوئی جلد اور ڈھلتی جوانی سارے میک اپ کا پول کھول دیتی ہے اور جسم کا ایک ایک حصہ چیخ چیخ کر اصلیت بیان کرتا ہے تو جناب اب اگر یہ بابا قانونی جنگ جیت لیتا ہے تو کہیں ہماری عدالتوں میں بھی ایسے مقدمات کی بھرمار ہو جا ے نہ اور لوگ دھڑادھڑ اپنی عمر کم کہلانے پر درخواستیں دیتے نظر آئیں۔
لاہور میں سپیکر کارنر بنائے جائیں گے
چلیں اس طرح کم از کم لوگوں کی آئے روز ٹریفک میں ہونے والی رکاوٹ کی زحمت سے تو جان چھوٹے گی۔ صرف یہی نہیں‘ ان حضرات کو بھی تسلی ہو جائے گی جو ہر وقت مجمع اکٹھا کر کے تقریر کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔ خدا جانے انہیں یہ دیہاڑی دار لوگ اتنی وافر تعداد میں میسر کہاں سے ہوتے ہیں۔
لگتا ہے ان مجمع باز مقررین کے پاس وافر مقدار میں سرمایہ بھی ہے۔ جبھی تو ہم آئے روز یہ میلہ لگائے رکھتے ہیں۔ لندن میں ہائیڈپارک اس کام کیلئے مخصوص ہے جسے کسی کی مخالفت میں یا حمایت میں مجمع لگانا ہو‘ جلسہ کرنا ہو‘ وہ ہائیڈ پارک کا رخ کرتاہے جہاں اسے درجن بھر سامعین بھی میسر آتے ہیں۔ اب لاہور میں بھی اسی نوعیت کے سپیکر کارنر بنانے کا فیصلہ ہوا ہے تو یہ بہت مناسب ہے۔
کم از کم اور کچھ نہیں تو لوگوں کو مفت جلسہ کرنے‘ مظاہرہ کرنے‘ بھوک ہڑتال کرنے کیلئے جگہ میسر آ جائے گی اور شہریوں کی زندگی درہم برہم ہونے سے بچ جائے گی۔ بہتر ہے کہ ایسے سپیکر کارنر لاہور کے تمام زونوں میں بنائے جائیں تاکہ سیاسی‘ سماجی اور مذہبی مقررین کو زیادہ دور جانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے اور وہ اپنے علاقہ میں ہی جلسہ جلوس یا دھرنا دے کر دل ٹھنڈا کر لیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی سڑکوں پر نظر آئے تو حکومت کو حق حاصل ہے کہ اس پر دہشت گردی کا پرچہ کٹوا کر اسے نشان عبرت بنا دے۔
٭…٭…٭
ایکسائز آفس اسلام آباد سے کروڑوں روپے کی گاڑیاں غائب ہونے کا انکشاف
صرف اسلام آباد ہی کیا‘ ذرا حکومت ہمت مرداں کا مظاہرہ کرے‘ دیگر بڑے چھوٹے شہروں میں قائم ایکسائز آفس میں ہنگامی آپریشن کا آغاز کرے تو معلوم ہوگا کہ کروڑوں نہیں‘ اربوں روپے کی قیمتی گاڑیاں غائب ہیں۔ ایکسائز آفس میں ضبط کرکے یا پکڑ کر لائی جانے والی اکثر لگژری گاڑیاں دفتر کے اعلیٰ افسران اپنے لئے رکھ لیتے ہیں۔
یہی نہیں ان کی بیگمات اور بچونگڑے بھی انہی دفاتر سے حاصل شدہ گاڑیوں سے ڈرائیونگ سیکھتے ہیں او ر انہی پر سیرسپاٹے کر کے رعب جھاڑتے ہیں۔ اس سکینڈل کے پکڑے جانے پر اگر بھرپور ایکشن لیا گیا تو ایسی گاڑیاں اعلیٰ افسران یا انہوں نے جن کو گفٹ کی ہیں‘ ان کے ہاں سے بھی برآمد ہو سکتی ہیں۔
اکثر اوقات یہ گاڑیاں کھٹارا حالت میں ہی دفتر واپس آتی ہیں ورنہ بکائو مال سمجھ کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ ایکسائز والوں کے تو وارے نیارے رہتے ہیں۔ خواہ پنڈی کے ہوں یا پشاور کے‘ لاہور کے ہوں یا کراچی کے‘ کوئٹہ کے ہوں یا ملتان کے۔ہر جگہ ان کے دفاتر میں گاڑیاں ہی نہیں اور بھی بہت کچھ ضبط شدہ آتا ہے اور بالا بالا ہی نہیں‘ اندر خانہ بھی نیچے تک تقسیم ہوتا ہے۔
٭…٭…٭