سابق وزیر خارجہ قصوری صاحب یہی بات بتانے اپنی تصنیف ہندوستان لے گئے۔ متعصب ہندوئوں نے میزبان کا منہ کالا کر دیا۔ باالفرض اس سے ہٹ کر کوئی حل تھا تو آپ بتاتے کیوں نہیں ! کیا یہ ریاستی راز ہے؟ انہیں شایدبقیہ عمر اپنی ’’حسین یادوں‘‘ کے سہارے گزارنا پڑے گی! پرویز مشرف کے متعلق اب کیا کہنا ہے جو شخص کارگل جیسا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے وہ کشمیر کے مسئلے کا بھی کچھ ایسا ہی حل نکالتا۔البتہ ایک بات سمجھنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں جوہری طاقتیں ہیں اگرچہ بھارت کو عددی برتری حاصل ہے مگر پاک فوج ہندوستان آرمی کی نسبت یقینا زیادہ WAR HARDENED اور مضبوط ہے۔ اس کا مورال بھی بہت بلند ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کی بڑھکیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ کیا انہیں کسی سُپرطاقت نے گارنٹی تو نہیں دی کہ تمہیں کسی قسم کی زک نہیں پہنچے گی! لالہ جامے سے باہر نکل رہا ہے۔…ع
کچھ تو ہے جسکی پرداداری ہے۔
ہمارے افغانستان کے ساتھ تعلقات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ بلاشبہ ان کے ادارے ہندوستانی ایجنسی ’’را‘‘ کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ بسا اوقات تو کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ They are operating from the same wavelangth ایسا کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ افغانستان کی کٹھ پُتلی حکومت کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ پس پردہ امریکہ تاریں ہلاتا ہے۔ وہ اپنی ناکامیوں اور ہزیمتوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ اس کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ ہے۔ ایک طویل جنگ اور کثیر رقم خرچنے کے بعد رسوا ہو کر نکلنا منظور نہیں ہے۔ اسے کچھ بیانیہ چاہئے اسی لئے پاکستان پر دن رات زور ڈال رہا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو کیا معاہدہ ہو سکتا ہے؟ طالبان دہشت گردوں کو پناہ نہیں دیں گے؟ موجودہ حکومت کو چلنے دیں گے؟ دہشت گرد ویسے ہی کافی حد تک افغانستان چھوڑ کر عراق، شام ، لیبیا اور دیگر ممالک میں چلے گئے ہیں۔ امریکہ کے بغیر اشرف غنی حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ اس کی اپنی فوج تتربتر ہو جائے گی۔ اکثریت طالبان کے ساتھ جا ملے گی۔ نتیجتاً، Back to square one والی پوزیشن ہو جائے گی ۔ باایں ہمہ جنگ پھر بھی مکمل طور پر نہیں رُکے گی۔ شمال اور جنوب کے قبائل متحرک اور متحارب ہو جائیں گے جو آگ امریکہ نے لگائی ہے اس کی چنگاریاں سلگتی رہیں گی۔ پاکستان اور ایران پراکسی وار لڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ مختلف قبائل وار لارڈز عملاً خودمختار ہو جائیں گے۔ پاکستان کو کسی ایسی صورت حال سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قرآئن سے لگتا ہے کہ اگلے صدارتی الیکشن تک امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا۔
چین بے شک ہمارا دوست ہے۔ دشمن کا دشمن ہمیشہ دوست ہوتا ہے۔ خطے کی چودہراہٹ کے لئے ہندوستان اور چین امیدوار ہیں۔ چین کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے امریکہ ہندوستان کی مدد کر رہا ہے۔ دوستی کے باوصف ہمیں ایک حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے۔ چین ایک حد تک تو مدد کرتا ہے۔ اس سے آگے نہیں بڑھتا۔ ان کا اندازہ ہے کہ مناسب وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔ حالات خودبخود ان کے حق میں ہوتے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امریکہ سے براہ راست تصادم نہیں چاہتا۔ چین اگر چاہے تو تائیوان کو آسانی سے زیر کر سکتا ہے لیکن اس کو بھی مناسب وقت تک معرضِ التوا میں ڈال رکھا ہے۔ سابق امریکی صدر رچرڈنکسن نے کہا تھا۔ 2030ء تک چین امریکہ کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔ غالباً یہی اس کا ٹارگٹ ہے۔ ’’سی پیک‘‘ کا ایک فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ چین کی ( Involvement ) بڑھی ہے۔ یہ پاکستان کی سالمیت پر تو آنچ نہیں آنے دے گا لیکن معاشی اعتبار سے ہمیں اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونا ہوگا۔ جب سے پاکستان بنا ہے، ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں۔ اتنے لمبے بارڈر پر عملاً کوئی فوج تعینات نہیں۔ یہ بہت بڑا ریلیف ہے۔ اس وجہ سے ہم مشرقی بارڈر پر بھرپور توجہ دے سکتے ہیں۔
دہشت گردی کی وجہ سے اب پاک افغان بارڈر پر بھی کافی فورس تعینات ہے۔ گویا ہم ایران کے ساتھ بگاڑ افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ باایں ہمہ کچھ عرصے سے پہلی سی گرمجوشی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو امریکی پالیسیاں ہیں۔ اسرائیل کی شہ پر امریکہ نے ایران پر کافی تجارتی پابندیاں لگا رکھی ہیں پھر سعودی عرب ، ایران تنازعہ الگ سے چل رہا ہے۔ خطے کے کچھ ممالک میں دونوں ملک پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔ ایران نے جس طرح عراق کے ساتھ جنگ لڑی اس سے ایک حقیقت کھل کر سامنے آگئی ۔ تمام خطے میں یہی ایک ملک ہے جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کر سکتا ہے وہ جنگ بھی امریکہ کی شہ پر صدام نے شروع کی تھی۔ اس عرب و عجم تصادم میں پاکستان نے اپنے آپکو الگ تھلگ رکھا۔ جس سے ہمیں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی ناراضی مول لینا پڑی۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا ٹیسٹ تھا اور ہے۔ Delicate Act of Balancing دونوں ممالک کو ناراض کئے بغیر الگ تھلگ رہنا۔ ملکی مفاد کو ہر صورت میں مقدم رکھنا۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک ہمیں مالی امداد دیتے ہیں جو ایران نہیں دے سکتا۔ نہ اس کے پاس اتنی خطیر رقم ہے اور نہ یہ اس کی پالیسی ہے۔ شہنشاہیت میں تو Discretion ہوتی ہے، جمہوری حکومتیں اس قسم کی فیاضی کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ پھر ہمارے لاکھوں لوگ روزگار کی تلاش میں عرب ممالک میں گئے ہیں اور وہاں کام کر رہے ہیں ناراضی کی صورت میں انہیں فارغ کرنا نسبتاً آسان ہے۔ یورپ اور امریکہ میں ہر کام اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ ایران مالی امداد تو نہیں دے سکتا لیکن ہمارا بارہ سو میل لمبا بارڈر مشترک ہے۔ مخاصمت کی صورت میں پاکستان کثیر تعداد میں وہاں فوج تعینات نہیں کر سکتا۔ گویا ہم اس وقت سمندر اور چٹان کے درمیان کھڑے ہیں۔ اس صورتِ حال سے عہدہ برأ ہونے کے لئے ہمیں بیدار مغز حکمران اور تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے۔ امریکہ کا جو عرب ممالک پر اثر رسوخ ہے اس کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ صدر ٹرمپ آئے روز دھمکی دیتا رہتا ہے کہ امریکہ کی مدد کے بغیر عرب ممالک اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔ ایران کا ہوا بھی دراصل اس نے ہی کھڑا کر رکھا ہے۔ ٹرمپ بڑا اکھڑ آدمی ہے۔ ڈپلومیسی کو اس نے ہمیشہ شریفانہ فاصلے پر رکھا ہے جو بات دیگر امریکی صدور زیرلب یا اشاروں کنائیوں میں کہتے تھے۔ ٹرمپ اس کی ادائیگی کا پھاوڑا براہ راست کھینچ مارتا ہے۔ ویسے بھی حکمرانوں کی سب دولت امریکی بینکوں میں ہے جو ناراضی کی صورت میں منجمد ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان صاحب نے حال ہی میں سعودی عرب اور عرب امارات کا ’’کامیاب‘‘ دورہ کیا ہے۔ بقول وزیراطلاعات کے انہیں وہ پروٹوکول ملا ہے جس سے شریف برادران کو محروم رکھا گیا تھا۔ سعودی عرب نے سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری کا بھی یقین دلایا ہے۔
گوادر میں سعودی سٹی کا قیام جس کی لاگت دس ارب ڈالر ہو گی چونکہ کسی صحافی نے ان سے اصل سوال نہیں پوچھا۔ اس لیے ہم اس کی جسارت کر رہے ہیں۔ یہ دس ارب ڈالر کی رقم کتنے عرصے میں آئے گی؟ پانچ سال، دس سال؟ دوسرا ہماری معیشت سسک رہی ہے۔ ہمیں فوری طور پر 12 ارب ڈالروں کی ضرورت ہے۔ عرب ممالک نے فوری طور پر کچھ رقم عطا کی ہے؟ تیل موخر ادائیگی پر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکہ کی انگیخت پر IMF امداد کی صورت میں ایسی کڑی شرائط رکھے گا جس سے بقول سنیٹر مشاہد حسین حکومت کے ’’کڑاکے، نکل‘‘ جائیں گے ۔
وزیراعظم صاحب نے فرطِ جذبات میں فرمایا کہ پاکستان کسی کواجازت نہیں دے گا کہ وہ سعودی عرب پرحملہ کرے۔ ہمیں علم نہیں کہ کہ ان کا اشارہ کس طرف تھا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہ کونسا احمق ملک ہو گا جو سعودی عرب پر حملہ کرنے کی جسارت کرے گا؟ حرمین شریفین وہاں ہیں۔ تمام مسلم دنیا میں آگ سی لگ جائے گی۔ کیا امریکہ اس کی اجازت دے گا؟
امریکہ اور یورپی ممالک کے لئے سعودی عرب سونے کی چڑیا ہے۔ ان کی معیشت سعودی تیل سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس وقت سوائے ایران کے کسی بڑے ملک سے ان کی مخاصمت نہیں ہے۔ ایران کوامریکہ معاشی طور پر اس مقام پر لے آیا ہے جہاں حکومت کے لئے اپنے لوگوں کو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ پاکستان ثالثی کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو! مسائل کا ایک کوہِ گراں ہے جس کے نیچے ہم دبتے جا رہے ہیں۔ خان صاحب نے اگر عرب تاریخ کا مطالبہ کیا ہوتا تو انہیں پتہ چلتا کہ یہ چودہ سو برس کا قصہ ہے، آج کل کی بات نہیں۔ اگر فردوسی ہی پڑھ لیتے تو انہیں گہری مخاصمت کا ادراک ہو جاتا…جس نے صدیوں پہلے عربوں اور ان کی معاشرت پر زبان طعن دراز کرتے ہوئے، ایک مشہور شعر کہا تھا، جس کا ایک مصرع ’’تفو برتو اے چرخ گرداں تفو! ضرب المثل بن چکا ہے! (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024