کہتے ہیں جب مصیبت آتی ہے تو اکیلے نہیں آتی بلکہ ہجوم کی شکل میں آتی ہے ۔جسٹس ایم آر کیانی مرحوم نے تویہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’مصائب بٹالین ‘‘ کی شکل میں آتے ہیں اور بد قسمتی سے مختلف مصائب نے اسوقت پاکستان کا رخ کر لیا ہے۔ جب سے نئی حکومت اقتدار میں آئی ہے مصائب نے پاکستان کی راہ دیکھ لی ہے۔پاکستان پہلے ہی دہشتگردی،کرپشن ،فرقہ پرستی اور سب سے بڑھ کر معاشی زبوں حالی کا شکار ہے اور سونے پہ سہاگہ کہ پاکستان مخالف امریکی رویہ جو پاکستان سے وہ کچھ کرانا چاہتا ہے جو کچھ وہ خود نہیں کر سکا۔ پاکستان امریکہ کی خدمت کرتے کرتے اپنے 70ہزار بے گناہ اہل وطن شہید کروا چکا ہے اور سوا ارب ڈالرز کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے لیکن امریکہ ہمارے لئے ’’کالی ماتا ‘‘ بن چکا ہے۔ پاکستانی خون اسکے منہ کو لگ چکا ہے۔ اتنی زیادہ قربانیاں دلوانے کے باوجود اسکی خونیں پیاس بجھ ہی نہیں رہی ۔اس خطے میں شروع کی گئی امریکی جنگ نے نہ صرف ہمارا امن و امان تباہ کیا ہے بلکہ ہمیں معاشی طور پر بھی مفلوک الحال کر دیا ہے۔ ہمیں قرض میں اسطرح جکڑا ہے جیسے دشمن کو زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے کہ ہم ہل جل ہی نہیں سکتے۔ ہمیں مزید بے عزت اور بے توقیر کرنے کیلئے بین الاقوامی مالی اداروں کے دروازے بھی ہم پر بند کرا دئیے ہیں۔ ہماری حکومت اپنی عزت بچانے کیلئے مختلف دوست ممالک سے مدد مانگنے پر مجبور ہوگئی ہے اور امریکہ ہماری مجبوری کا تماشہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
مصائب کی یلغار کی سب سے بڑی وجہ ہماری معاشی بد حالی ہے جس وجہ سے حکومت ٹیکس اور قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ نتیجتاً روزمرہ کی ضروری اشیاء کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ غریب عوام ان تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ ہمارے عوام پہلے ہی غربت اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بہت تکلیف دہ زندگی گزار رہے تھے ۔دو وقت کی روٹی پوری کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ۔45فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی کا بوجھ اٹھا کر جی رہے تھے۔ اوپر سے بجلی اور گیس کی بے تحاشہ اور بے وقت لوڈ شیڈنگ کے باوجودہ نا قابل برداشت ہیوی بلز نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اور اب نئی حکومت کے نئے ٹیکسز اور نئی قیمتوں نے70فیصد آبادی کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے ۔ عوام کیڑے مکوڑوں کی طرح زندہ رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ غرباء کیلئے روزگار کے مواقع نا پید ہیں۔ عوام پو چھتے ہیں ہم جائیں تو کہاں جائیں؟اب تو قبرستان بھی نا جائز تجاوزات کی زد میں آہستہ آہستہ اس حد تک سکڑ چکے ہیں کہ قبر کا حصول بھی نا ممکن ہو گیا ہے ۔
ان مسائل سے تو قوم پہلے ہی لڑ لڑکر بے حال ہو چکی ہے کہ نئی افتاد دھرنوں اور ہڑتالوں کی صورت میں عوام پر بجلی بن کر آ گری ہے۔آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ کیا آیا کہ کچھ علماء کرام نے پورا ملک ہی مفلوج کر دیا۔ جگہ جگہ دھرنے، آگ ،سڑکیں بلاک ،بازار بند،غریبوں کی مزدوری بند ، مسافر ہر جگہ خوار ،بسیں ،کاریں ، موٹر سائیکلز جو چیز بھی سامنے آئی جلا دی گئی جیسے دشمن کی پراپرٹی ہو۔کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی چیز کسی غریب کی ملکیت ہے جو بہت مشکل یا قرض کی رقم سے خریدی گئی تھی۔ غریب آدمی کا روزی اور آمدنی کا ذریعہ بھی اس سے چھین لیا گیا۔ تین دن پورا ملک مفلوج رہا۔ نجانے کتنی فیملیز بھوکی سوئیں۔بچوں کے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں بند رہیں۔ طلباء کے امتحانات ملتوی ہو گئے۔ ملک کو اندازاً پونے دو سوارب کا نقصان پہنچا۔اس میں حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہوا ۔یہ سب کچھ حضور کریمؑ کو خوش کرنے کیلئے ہوا۔ کیا واقعی یہ اسلام کی خدمت ہے؟ کیا واقعی حضور کریم ؑ خوش ہو گئے ہوں گے ؟ شاید کچھ لوگوں کی رائے میں تو ہو لیکن ہمارے حضور کریمؑ تو صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے رحمت لعالمین تھے۔ وہ تو اس غیر مسلم بوڑھی عورت کی عیادت کیلئے بھی اسکے گھر تشریف لے گئے جو روزانہ اُن پر کوڑا پھینکتی تھی۔ حضورؑ نے تو اُن لوگوں کو بھی معاف کر دیا جنہوں نے خانہ کعبہ میں عبادت کرتے ہوئے ان پر گندگی پھینک دی تھی ۔کفار اور یہودی انکی موجودگی اور انکی عدم موجودگی میں بھی ان پر کیچڑ اچھالتے تھے ۔اُنکی تضحیک کرتے تھے لیکن آپؑ نے کبھی بھی ان لوگوں سے بدلہ لینے کی کوشش نہ کی اور نہ ہی کسی کو کہہ کر انہیں قتل کرانے یا سزا دلوانے کی کوشش کی۔حتیٰ کہ انکے لئے بددعا تک کبھی نہ کی۔ حضور کریمؑ کی یہی برداشت اور حُسنِ سلوک ہی تو اسلام پھیلانے کا ذریعہ ثابت ہوئے۔حال ہی میں ایک بھارتی مفکر نے کسی بڑی مجلس میں تقریر کرتے ہوئے کہا :’’ مسلمان اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کرتے ہیں ۔دہشتگردی کرتے ہیں۔خود مرنے مارنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ دوسرے مذاہب کو برداشت نہیں کرتے لیکن یہ لوگ اپنے پیغمبر ؑ کی دی ہوئی ہدایات، برداشت ،رواداری اور حسن سلوک جیسی روایات پر کبھی عمل نہیں کرتے ۔یہ لوگ اپنے پیغمبر کی عادات کی پیروی کریں تو پوری دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے‘‘۔
ہم نے یہ ہڑتال کرکے، دھرنے دے کر، بسیں، کاریں اور موٹر سائیکل جلا کر اسلام کا دنیا کو کونسا پیغام دیا ہے۔ اس دوران جو غنڈہ گردی ہوئی اسکا ذمہ دار کون ہے؟ کتنی شرم کی بات ہے کہ اس اسلامی ہجوم نے ایک گیارہ سالہ معصوم لڑ کے کی ریڑھی تک لوٹ لی۔اس سے بہتر بھلا اسلام کی کیا خدمت ہو سکتی تھی ؟وہ نادار مریض جو دھرنوں اور سڑکیں بلاک ہونے کی وجہ سے ہسپتال نہ پہنچ سکے انکا کیا قصور تھا؟کیا کوئی عالم دین جو عوام کو اسلام کے نام پر ایسے راستے پر چلاتا ہے کبھی ان باتوں کے متعلق سوچے گا؟ کیا وہ دنیا کو مسلمانوں اور اسلام کا محبت بھرا پر خلوص چہرہ دکھا ئے گا؟ ْاسی لئے تو لوگ مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں اور یہ لیبل صرف علما کرام ہی دور کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ان سے اپیل ہے کہ وہ اسلام کا روشن چہرہ دنیا کے سامنے لائیں۔ موجودہ جلوسوں کی وجہ سے ہونے والے قومی نقصان کو دیکھ کر مجھے وہ سردار جی یاد آتے ہیں جس نے ریوالور سے نیا نیا فائر کرنا سیکھا۔اپنا نشانہ دیکھنے کیلئے اس نے سامنے ایک درخت پر تین فائر کئے اور تینوں فائر خطا ہو گئے تو اس نے غصے سے فائر کرنے والے بازو پر فائر کر دیا کہ فائر خطا کیوں ہوا ہے؟ (معذرت ) ۔یہاں بھی یہی ہوا۔قصہ ایک عیسائی عورت کا تھا۔ خدا جانتا ہے مجرم تھی یا نہیں اور غصے میں ہم نے اپنا قومی نقصان کر لیا۔ غریب عوام کو عذاب میں ڈال دیا جبکہ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ غیر مسلم یقیناً ہماری اسلامی کاروائیوں پر ہنستے ہوں گے ۔ہمیں اپنے آپ کو تباہ کرنے پر دشمن خوش نہیں ہونگے تو کیا پریشان ہونگے۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے علمائے کرام اور اس جلوس کی قیادت کرنے والے علمائے کرام بھی ایسی غیر اسلامی کاروائیاں پسند نہیں کرتے۔شاید انہیں پتہ بھی نہ ہو کہ انکے پیروکاروں نے عوام کو کس عذاب میں مبتلا کیا ہے۔ایسے نظر آتا ہے کہ دشمن ہمارے ملک میں بہت سر گرم ہے۔اس نے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانے کیلئے اور امن و امان تباہ کرنے کیلئے غنڈے پال رکھے ہیں جو ایسے مواقع پر جلوس میں شامل ہو کر ملکی اور عوامی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ لہٰذا علمائے کرام سے درخواست ہے کہ اپنے پیروکاروں کے ذریعے ایسے غنڈہ عناصر کو قابو میں رکھیں اور خوامخواہ کی بد نامی سے بچیں۔ ان لوگوں کا مقصد ہی اسلام کو مسخ کرنا اور قابلِ عزت علماء کرام کو بد نام کرنا ہے۔ علمائے دین ہمارے دینی اور دنیاوی راہنما ہیں ۔ان سے ملکی مفاد کیخلاف کسی کاروائی کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید تو ہو سکتی ہے لیکن عدلیہ، حکومت اور فوج کیخلاف نا زیبا الفاظ استعمال کرنا یا ننگی گالیاں دینا کسی عالم دین کا شیوہ نہیں۔یہ غداری کے زمرے میں آتا ہے اور ایسے آدمی سخت سزا کے مستحق ہیں۔ہمیں توقع ہے کہ ہمارے علمائے دین فرقہ پرستی کو جڑ سے اکھاڑ دینگے۔قوم کو متحد کرینگے جن میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں۔ قوم کی صحیح معنوں میں راہنمائی کرینگے اور دنیا کو اسلام کا وہ چہرہ دکھائیں گے جو ہمارے پیغمبرِ اسلام، راہنمائے دو عالم ،رحمت للعالمین نے اسوقت کے کفار کو دکھایا تھا۔ اسی میں قوم کی بھلائی ہے اور اسلام کی عزت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024