چودھری سرور ایک دوست دار آدمی ہیں۔ کیا ایسے ہوتے ہیں گورنر؟ ان کے پاس بیٹھا ہوا آدمی خود کو گورنر محسوس کرتا رہتا ہے۔ میں نے آج ان کیلئے کالم لکھا ہے۔ آج سے مراد کل ہے۔ کل ہی انہوں نے کہیں طلبہ و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کا ذکر کیا اور طلبہ و طالبات کو بہت ہنسایا۔ یہ بات بہت اچھی لگی۔ برطانیہ میں میاں بیوی کا جھگڑا ہو تو میاں صاحب گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ چودھری صاحب گھر چھوڑ کر گورنر ہائوس پنجاب آگئے ہیں۔ میری بہن پروین بھی پیچھے پیچھ آگئی ہیں۔
اپنی ازدواجی زندگی کی بات کرتے ہوئے ہر آدمی دوسروں کو ہنسا سکتا ہے۔ آج نوائے وقت میں عنبرین فاطمہ نے ان کی اہلیہ پروین سرور کا انٹرویو شائع کیا ہے۔ اس نے ہنسایا تو نہیں مگر ایک خوشگوار اور شگفتہ تاثر انٹرویو میںضرور موجود ہے۔ ایسی باتیں ہیں کہ آدمی ہنسنا چاہے تو نہیں ہنس سکتا ہے۔ میری بھابی پروین کو کوئی اعتراض نہیںہوگا اور عنبرین فاطمہ کو تو بالکل نہیں۔ پروین بی بی نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے سکولوں‘ تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ہر چھ ماہ کے بعد اپنے اساتذہ کا امتحان لینا چاہئے۔ اس طرح تو 90 فیصد اساتذہ فیل ہو جائیں گے تو لڑکے کس طرح فیل ہونگے۔ ہمارا تعلیمی نظام کیسے چلے گا۔ برطانیہ میں دیکھا جاتاہے کہ اساتذہ پڑھانے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔
جب میں ایم اے کرنے کے بعد سیدھا کالج میں پڑھانے لگا تو میں نے بہت عجیب محسوس کیا۔ میرے سامنے بچے بھی ایسے ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ پروین صاحبہ نے بتایا کہ میری بہو ہر سال امتحان دیتی ہے۔ میں جب گورنر ہائوس آئی تو میں نے دروازے عام لوگوں کیلئے کھول دیئے۔ میں انہیں بتائوں کہ کچھ لوگ دروازے اس لئے نہیں کھولتے کہ انہیں خود باہر جانا پڑے گا۔ گورنر صاحب سے ملاقات مال روڈ پر ہوگی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عورتوں کو امپاورمنٹ دینا میری پہلی ترجیح ہے۔ بہت سارے فیصلوں میں لڑکیوں کو پڑھا تولیا جاتا ہے مگر انہیں ملازمت نہیں کرنے دی جاتی۔ اس کے علاوہ میں نے پنجاب میں 150 سلائی سنٹر کھولے ہیں جہاں جیولری بنانا بھی سکھایا جاتا ہے۔ غریب بچیاں جیولری لائیں گی کہاں سے؟ یہ سب کچھ سرور فائونڈیشن کے زیراہتمام ہوتا ہے۔ اگر پروین فائونڈیشن کے زیراہتمام ہوتا تو زیادہ اچھا ہوتا اور بچیاں آسانی محسوس کرتیں۔
انٹرویو میں میری بہن پروین بی بی کی تصویر بھی شائع ہوئی ہے۔ وہ بہت معصوم اور پینڈو سی لگ رہی ہیں۔ پینڈو تو گورنر صاحب چودھری سرور بھی لگتے ہیں۔ اب یہ مقابلہ دونوں میا؎ں بیوی میں شروع ہو جائے گا۔ جیت پروین بہن کی ہوگی کیونکہ وہ پاکستانی مصنوعات پر اعتماد کرتی ہیں۔ اعتماد تو چودھری صاحب بھی کرتے ہیں مگر؟
ایک دفعہ پروین بی بی کے ابو نے ان سے کہا کہ میں آپ کو گاڑی دینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے ابو سے کہا کہ آپ نے زیور دیا‘ وہ لاکرز میں پڑا ہے۔ گاڑی بھی گیراج میں کھڑی رہے گی۔ دوسرے دن وہ وفات پا گئے۔
وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد میانوالی پہنچ گئیں۔ وہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میانوالی بھی گئیں۔ انہوں نے بتایا نہیں کہ وہاں کیسی بے بسی اور کسمپرسی کا حال ہے۔ وہاں مریضوں کا اور ان کے لواحقین کا کیا حال ہے؟ بہت دنوں کی بات ہے۔ ابا زندہ تھے‘ بھائی اصغر نیازی بیمار تھا اور ڈاکٹر اسے ہسپتال رکھنا چاہتے تھے مگر وہ ہسپتال کی حالت زار دیکھ کر تیار نہ تھا مگر میرے کہنے پر وہ بے چارہ وہاں ایک رات رہ گیا اور اب تک 40 برس سے بیمار ہے۔ یہ حال ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال کا ہے۔ ایک بار میں بیمار ہوا تو میانوالی ہسپتال والوں نے کہا کہ اسے لاہور لے جائو۔ میں نہ گیا۔ میں نے کہا کہ مجھے اپنی ماں کے پاس لے جائو۔ میں اس کی آغوش میں مرنا چاہتا ہوں۔ جونہی گاڑی گھر کی سڑک پر گئی تو میں ٹھیک ہونے لگ گیا۔ پھر میں ماں کی آغوش میں سو گیا۔ وہاں جا کے ڈاکٹر یاسمین راشد نے کیا کیا ہوگا۔ وہ دردمند اور اچھی خاتون ہیں۔ میرے ساتھ بہت پرانے روابط ان کے ہیں۔ جب وہ ابھی صرف ڈاکٹر یاسمین راشد تھیں۔ پھر وہ سیاسی ہو گئیں۔ انہوں نے بیگم کلثوم نواز کے خلاف الیکشن لڑا اور ہار گئیں۔ انہیں ہارنا ہی تھا۔ میںانہیں اس ’’جیت‘‘ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میں انہیں جانتا ہوں۔ جب وہ لاہور کالج فار ویمن کے سامنے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھتی تھیں۔ میں انہیں کئی بار وہاں ملا۔ اب بھی وہاں سے گزرتا ہوں تو بڑی محبت سے سلام کرتا ہوں۔ جبکہ وہ وہاں نہیں ہوتی ہیں۔ امید تھی کہ وہ وزیر صحت بن کر کچھ کریں گی مگر انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ بہت عزت ڈاکٹر یاسمین راشد کی حیثیت سے دل میں ہے کیوں نجانے وزیر صحت میں نے کبھی انہیں تسلیم نہیں کیا۔ میں نے بڑے بڑے وزیر صحت دیکھے ہیں۔ وہ بہت چھوٹے آدمی تھے۔ وزیر شذیر بن کر اور بھی چھوٹے ہو گئے ۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی شخصیت بہت بڑی ہے۔
ان کے لئے ایک خلوص میرے دل میں ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر عاصم جیسے اچھے دل والے ڈاکٹر کی جناح ہسپتال لاہور کا ایم ایس لگایا ہے۔ میں نے کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اب جناح ہسپتال کو ’’محمد علی جناح ہسپتال‘‘ بنا دیں۔ ہر ہسپتال ایک ایسی جگہ کی طرح ہونا چاہئے جو خواتین و حضرات کے لئے ایک پناہ گاہ کی طرح ہو۔ یاسمین راشد وزیر صحت ہیں اور ایک اچھی ڈاکٹر بھی ہیں۔ خوشگوار شخصیت کی مالک ہیں۔ شگفتہ مزاج بھی ہیں۔ میں کئی بار اُن سے ملا ہوں۔ کئی دنوں اس کے بعد بھی طبیعت میں شگفتگی اور کشادگی قائم رہتی ہے۔
رخشندہ نوید اردو کی ایک نامور شاعرہ ہے۔ میں اس کا بہت مداح ہوں۔ اب اس کی پنجابی کا ایک شعری مجموعہ آیا ہے۔ ’’حالی آٹا وسمیانا ہیں‘‘ آٹا کا لفظ پوری نسوانی خوبصورتی اور معنویت سے چمک رہا ہے۔ اُردو زبان میں یہ لفظ اپنا ذائقہ ہی نہیں دیتا۔ شاعری بھی اپنی روشنی میں دور دور تک بکھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور دیر دیر تک نکھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ رخشندہ ایک مکمل شاعرہ ہے۔ وہ جس محفل میں ہو تو اُمید سی لگ جاتی ہے کہ اچھی اور گہری شاعری سننے کو ملے گی۔
ہم اس کی اردو شاعری کے دلدادہ ہیں اور عادی ہیں۔ اس کی پنجابی شاعری کا مجموعہ دیکھ کر ابھی سے اس کے دوسرے پنجابی شعری مجموعے کا انتظار شروع ہو گیا ہے۔ آجکل دونوں شاعریاں ’’اردو اور پنجابی‘‘ بس نام کی حد تک شاعری رہ گئی ہے۔ مگر رخشندہ نے پہلے اردو شاعری سے حیران کیا۔ اب پنجابی شاعری سے تو پریشان کر دیا ہے۔ اتنی اعلیٰ شاعری پڑھ کر اچھا لگتا ہے۔ پنجابی شاعری سے ہماری دوستی یاری پھر سے تازہ ہو گئی ہے۔ ایسی شاعرہ جس سے پنجابی شاعری کی توقع ہی نہ تھی۔ اس نے کمال کر دیا ہے۔ اپنے اس کمال سے بھی وہ شاعری کرتی رہے۔ حیران ہم خود ہو لیں گے۔
’’پنجاب دے نامور دانشور تے شاعر مشتافی صوفی نے اپنے ابتدائی لفظان وچ اپنی گواہی نال سرشار کر دتااے‘‘
ہمارے گائوں میں ایک صوفی شخص ہمیشہ دعا کرتا تھا…اے اللہ مینوں سوہنی موت دئیں‘‘ سوہنی زندگی کے لمس کے بغیر آئی۔ یونہی موت کی دعا کر ہی نہیں سکتا۔ کوئی سوہنی کڑی نظر آئے تو سوہنی زندگی کا سوہنی موت کے ساتھ ملاپ ہو، میں نے اس شخص کو اتنے پیار سے دیکھا کہ وہ اپنی دعا کی طرح ہو گیا۔
مینوں زہر کھاون دی لوڑ نہ پئی
مینوں جیؤن سوکھیاں ای مار دتا
نہ ڈانگاں چلیاں نہ جنگاں ہوئیاں
میں ماہیے نوں اپنے ہتھیں ماردتا
ویلے نے خوشیاں والا پل
مینوں کچھ گھڑیاں لئی ادھار دتا
میں تیز تیز ٹُر کے راہواں تیکر اپڑن دے لئی
منزل نوں اپنی جان اُتوں وار دتا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024