اتوار کو نوید کریم چودھری کافون آیا کہ آئی جی پولیس سردار محمد چودھری کی یاد میں تشکیل دئیے گئے فاﺅنڈیشن کی خصوصی نشست ہو گی۔ اس تقریب میں میری شرکت ضروری تھی کہ میں اس کااعزازی سیکرٹری جنرل ہوں اور نوید کریم اس کے چیئر مین۔ ماڈل ٹاﺅن میں دیکھے بھالے گھر میں پہنچا۔ ایک وسیع لان میں دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھااور پھر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ نوید چودھری بڑے بھولے انسان ہیں، کہنے لگے کہ چودھری صاحب کی ایک کتاب کا عنوان ہے۔ کشت ویراں۔ بڑا مشکل اور ناقابل فہم عنوان تھا۔ ایک روزمیں نے جھجکتے ہوئے پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ چودھری صاحب نے سادہ الفاظ میں سمجھایا کہ کسی کھیت میں جنگلی جانور گھس جائیں تو وہ فصل کا جو حشر کرتے ہیں، اسے کشت ویراں کہتے ہیں۔ یہ سن کر بھی نویدصاحب کچھ نہ سمجھے اور مزید وضاحت کی درخواست کی ۔ چودھری سردار محمد نے کہا کہ بیٹا! یہ ہمارا ملک پاکستان اللہ کی نعمت ہے ۔ اسے ہم مملکت خداداد کہتے ہیں۔یہ قائد اعظم اور ان کے بے لوث ساتھیوں کی ان تھک محنت سے تشکیل پایا۔ مگر قا ئد اور لیاقت علی خان کی بے وقت رحلت کے بعد یہاں سیاسی انتشار کو ہوا دی گئی جس کا فائدہ ایوب خان نے اٹھایاا ور ا س نے ملک پر غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ اب حکومت چلانا تو فوجی جرنیلوں کا کام نہ تھا۔ وہ تو توپ ،مشین گن اور رائفل چلانے کی مہارت رکھتے ہیں۔ بس سمجھ لو کہ انہوں نے اس ملک کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا کہ میں اسے کشت ویراں کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں اور میری یہ کتاب مادر وطن کی اسی بربادی کانوحہ ہے۔
مجھے یاد آیا کہ احمد نسیم جو بعد میں آئی جی بھی بنے۔ سرگودھا میں ڈی آئی جی تھے۔ وہاں پولیس کے کسی دستے کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ تھی جس میں راوین اور کلاس فیلو کی حیثیت سے انہوں نے مجھے بھی بلایا، شاید یہ جنرل ضیا یا اس کے بعد کا دور ہے۔ میںنے اپنی تقریر میں کہیں جنرل ضیا کی تعریف کر دی اور اب جو باری آئی چودھری سردار محمد کی تقریر کی جو تقریب کے مہمان خصوصی تھے تو انہوں نے مجھے لتاڑنا شروع کر دیا اور لگے فوجی حکومتوں کے نقائص بیان کرنے۔ میں جمہوری نظام کے خلاف تو تھا نہیں مگر مجھے یوں لگا کہ میں اس محفل میں مارشل لا کا نمائندہ ہوں اور ساری کڑوی کسیلی مجھے سننا پڑیں۔
یہی چودھری سردار محمد ریٹائر ہوئے تو میرے مرشد مجید نظامی کے ساتھ قربت کی وجہ سے نظریہ پاکستان کے دفتر میں آنے جانے لگے۔ انہوںنے صحیح معنوں میں اس ادارے کو نظریہ پاکستان کا عکاس اور ترجمان بنا دیا۔ گرمیوں کی چھٹوں میں سمر اسکول لگائے اور بچوں میں قومی ترانے کی لگن پیدا کی۔ سال بھر کے لئے انہوںنے بانیان پاکستان کے یاد گار دنوں کی ایک فہرست تیار کی اور اب ہر روز کسی نہ کسی کی یاد میں محفل جمنے لگی اور لوگوں کے اندر اپنے آباﺅ اجداد کی تاریخ کو جاننے کا شعور بیدار ہوا۔ انہی دنوں ان کی کتاب جہان حیرت شائع ہوئی۔یہ انگریزی میں عرصہ پہلے چھپ چکی تھی مگر بدیسی زبان کی وجہ سے کسی کی اس پر نظر پڑی، کسی کی نہ پڑی اور اب یہ جو جہان حیرت مارکیٹ میں آئی تو اس نے قارئین کو مبہوت کر کے رکھ دیا۔اور یہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے لگی۔ یہ اپنے دور کی ایک بیسٹ سیلر کتاب تھی مگر ناشر نے مصنف کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور معمول کے مطابق دو عشرے گزرنے کے باوجود اس کاپہلا ایڈیشن ہی فروخت ہو رہا ہے۔ بہر حال اس سے چودھری سردار محمدکو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ انہوںنے رائلٹی کمانے کی خاطر کتاب نہیںلکھی تھی بلکہ لوگوں کے لئے حقائق کی الف لیلی تصنیف کی تھی۔ اس کتاب کا ہرصفحہ ایک نئے جہان کے دروازے کھولتا ہے۔ کالم نگارجاوید چودھری تواس کتاب کے ا س قدر فریفتہ تھے کہ ا نہوںنے چودھری سردار محمد پر ایک فلم شوٹ کر نے کی بھی تیاری کی مگر چودھری صاحب کی صحت اجازت نہیں دیتی تھی اور وہ زیادہ چلنے پھرنے سے عاری تھے۔ اس لئے یہ پراجیکٹ سرے نہ چڑھا۔ جب یحیٰی خان کو معزول کیا گیا تو انہیں سہالہ ریسٹ ہاﺅس میں رکھا گیا۔ ان کو عدالت میں لانے لے جانے کی ذمے داری نوجوان ایس پی سیکورٹی چودھری سردار محمد کے سپرد تھی۔ عام طور پر یحیٰی خان کو ہیلی کاپٹر میں منتقل کیا جاتا تھا مگر ایک روز چودھری سردار محمد کو پتہ نہیں کیا سوجھی کہ وہ یحیٰی خان کو اپنی جیپ میں بٹھا کر لے گئے۔راستے میں ایک ریلوے پھاٹک آتا تھا جسے چودھری صاحب نے اپنی فورس سے کہہ کر بند کروا دیا تھا اور یہ انتظام بھی کیا کہ علاقے کے کچھ لوگ بھی پھاٹک پر جمع ہو جائیں ۔ اب جو جیپ اس پھاٹک پر پہنچی تو لوگوں کے ہجوم نے جیپ پر پتھر پھینکنے شروع کر دیئے۔ یحییٰ خاں نے چودھری سردار سے کہا ان لوگوں کو پیچھے ہٹاﺅ۔ چودھری صاحب نے بھولپن سے جواب دیا کہ یہ لوگ آپ کے کارناموں کی وجہ سے آپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے جمع ہیں ۔جو آپ نے بویا، وہی کاٹ رہے ہیں ۔اس میں گبھرانے کی بات کیا ہے۔ آپ ا س ملک کے چیف مارشل لاا یڈمنسٹریٹر رہے ہیں۔ اب ان کا سامنا کرنے کی ہمت بھی تو اپنے اندر پیدا کریں۔یہی جنرل یحییٰ خان اقتدار میں تھے تو ایوان صدر کی سیکورٹی کے امور چودھری سردار محمد کے سپرد تھے۔ انہوںنے وہاں جوکچھ دیکھاا ور جو کتاب میں چھپ سکتا تھا،وہ تو انہوںنے چسکیلی زبان میں لکھ دیا مگر جو کچھ کتاب میں نہیں چھپ سکتا تھا۔ وہ انہوںنے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا۔ جب ان کی وفات کے بعد فاﺅنڈیشن چلانے کے امور میرے سپرد ہوئے تو میں نے ان کی ویب سائٹ سے کئی ایک ایسے مضامین ہٹا دیئے جو مملکت خداداد کے کسی حکمران کو زیب نہیں دیتے تھے بلکہ کسی محمد شاہ رنگیلے کے قصے ہو سکتے تھے۔ ان قصوں کو پڑھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ اس فوجی حکمران کے ہاتھوں پاکستان دو لخت ہوا تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی۔ اچنبھا تو یہ تھا کہ باقی پاکستان ان کی دست برد سے کیسے محفوظ رہ گیا۔
ایک پولیس آفیسر کے طور پر چودھری سردار محمد کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک پنچائتی نظام تشکیل دیا جس نے لوگوں کے برسوں پرانے تنازعات کو یوں حل کروایا کہ دشمنیاں گہرے رشتوں میں بدل گئیں اور لوگ باہم شیر وشکر ہو گئے۔
آج کل حکومت اور پولیس افسران کے جھگڑے میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔گورنر اظہر کے دور میں بھی ایسی خرابی پید اہوئی تھی۔ اس لئے کہ وزیر اعلی غلام حیدر وائیں کو اللہ لوک سمجھ کر لا اینڈ آرڈر کے اختیارات گورنر اظہر کو سونپ دیئے گئے جو پولیس کو دھڑا دھڑ ارکان اسمبلی کے خلاف آپریشن کے احکامات جاری کر رہے تھے۔ آئی جی کے طور پر چودھری سردار محمد ان احکامات پر عمل درا ٓمد میں ڈھیل برتتے اور جب کبھی گورنر ہاﺅس میں میٹنگ ہوتی تو وہاں کوئی بہانہ کر دیتے کہ ہماری نفری کے پہنچنے سے قبل ہی مطلوب افراد رفو چکر ہو جاتے تھے۔ اس پرگورنر اظہر نے ایک تاریخی جملہ کسا کہ اگر میں آپ کو ایف سولہ بھی دے دوں تو آپ صحیح نشانہ نہیں لگا سکیں گے ۔چودھری سردار محمد اس ڈانٹ کو پی گئے مگر جلد ہی وزیر اعلی وائیں کے پاس ارکان اسمبلی شکائیتں لے کر پہنچ گئے کہ گورنر انہیںناحق تنگ کر رہا ہے جس پر گورنر سے لا اینڈ آرڈر کا چارج واپس لے لیا گیا۔ ویسے یہ اختیار آئین سے بالا تر تھا اور پولیس ،گورنر کے ا حکامات کو ماننا تو کجا، سننے کی بھی پابند نہ تھی۔
اتوار کی محفل میں ایک مقرر نے بتایا کہ بطور ایڈیشنل آئی جی چودھری سردار محمد کی ڈیوٹی لگائی جاتی تھی کہ وہ ا ٓنے والے الیکشن کے ممکنہ رزلٹ کاا ندازہ پیش کریں۔ یہ حسن اتفاق ہے یا چودھری صاحب کی فہم و فراست کا نتیجہ تھا کہ وہ جو رپورٹ تیار کرتے،نتائج اس کے عین مطابق ہو تے۔ اس لئے کہ وہ اسپیشل برانچ کے ذریعے ہر حلقے کے اندر لوگوں کے رجحانات کے پیش نظر ہی کوئی اندازہ قائم کرتے تھے۔ چودھری صاحب کے دور میں اعلی پولیس افسروں کی ایک کھیپ نے جنم لیا جن میں اظہر حسن ندیم، چودھری یعقوب اور احمد نسیم کا نام نمایاں طور پر لیا جا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024