پیشہ ور بھکاری معاشرے پر بوجھ
شہر کے ہر سگنل، بس سٹاپ ، شاپنگ سینڑز غرض شہر کے ہر کونے میں پیشہ ور بھکاری اس طرح موجود ہیں جیسے کسی میٹھی چیز پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں اور بھیک مانگنے کا انداز ایسا کہ جیسے دیا ہوا قرضہ واپس لے رہے ہوں۔ کا رسوارہو ، موٹر سوئیکل سوار ہو، پید ل چلنے والا ہو یا پھر خواتین ہی کیوں نہ ہوں کوئی بھی ان بھکاریوں کی زد سے محفوظ نہیںاور ہمیشہ کی طرح ان بھکاریوں کے خلاف حکومتی سطح پر کوئی کاروائی نہیں کی جا رہی۔عوام ان پیشہ ور بھکاریوں کی چیرہ دستیوں سے پریشان ہیں، یہ پیشہ ور بھکاری طاقتور مافیا کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ باقاعدہ پیشہ وربھکاریوں کو علاقے ٹھیکے پر دیے جاتے ہیں اور ٹھیکہ دارعلاقے کے متعلقہ تھانے کو ماہانہ رقم ادا کرتے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل چل رہا ہے اور اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک وفاق کی سطح پر پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف ایکشن نہیں لیا جاتا، یہ ایکشن قانونی بھی ہو سکتا ہے اور اصلاحی بھی۔ پاکستان کے ہر شہر میں بھکاریوں کے منظم گروہ موجو دہیں۔ایک سروے کمپنی کے مطابق ایک پیشہ ور بھکاری ماہانہ ایک چیف اکاﺅنٹنٹ سے زیادہ کما لیتا ہے اور حکومت کو ٹیکس بھی نہیں دینا پڑتا۔دیکھا جائے تو پیشہ ور بھکاری ایک طرف تو قوم پر بوجھ ہیں اور دوسری طرف پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ہر سال پاکستان میں سیاحوں کی آمد ہوتی ہے، یہ سیاح بھی ان بھکاریوں سے محفوظ نہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بھکاریوں کی موجودگی سے سیاحوں کی نظر میں پاکستان کا امیج خراب ہوتاہے۔ ان بھکاریوں کی بڑی تعداد منشیات فروشی اور جرائم میں بھی ملوث ہے ، ملک میں پیشہ ور بھکاریوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نہ تو کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے ، نہ کوئی ایسا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے کہ ان پیشہ ور بھکاریوں کو ملک و قوم کے لیے کارآمد شہر ی بنایا جا سکے۔ (مجاہد الآفاق، گلشن اقبال ، کراچی)