کوئی نصف صدی قبل ڈاکٹر امان اللہ جو قصور کے رہائشی ہیں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد سکالر شپ ملنے پر بذریعہ بحری سفر امریکہ روانہ ہوئے۔ اس وقت یہ سفر بہت طویل اور دشوار تھا مگر ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں نئے مستقبل کے سپنے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ پھر یہی ہوا، انہوں نے پی ایچ ڈی کی اور کینسر کے حوالے سے دنیا میں چند بڑے ڈاکٹروں میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے رینا ہسپتال کے نام سے ایک پرائیویٹ ادارہ بنایا جو اپنی مثال آپ ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اتنی کم عمری میں امریکہ جانے پر وہ مکمل طور پر امریکہ کو پیارے ہو جاتے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو سرے سے بھول جاتے مگر ایسا نہ ہوا۔ بلھے شاہ کی فکر اور فضا نے انہیں اپنے حصار سے نکلنے ہی نہ دیا۔ نہ وہ اپنی ثقافت کو بھول سکے اور نہ زبان سے دور ہو سکے۔ بھلے وہ اپنے روزمرہ معمولات کو انگریزی زبان میں ادا کرتے رہے مگر پنجابی ان کے دل میں بسی رہی، ان کی روح میں رچی رہی، ان کی سوچ میں سمائی رہی۔ انہوں نے جب بھی قلم پکڑا، جو بھی لفظ لکھا وہ خود بخود ان کی روح کی زبان میں ڈھل گیا۔ اگر کبھی انہوں نے انگریزی زبان میں بھی اظہارِ خیال کیا تو اسے پہلے پنجابی میں سوچا۔ ڈاکٹر صاحب پنجابی سے محبت نہیں عشق کرتے ہیں۔ اس سے پہلے پنجاب میں ایک ہستی گزری ہے جس کا نام شفقت تنویر مرزا تھا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پنجابی کے بہت بڑے عاشق تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی پنجابی زبان کی سربلندی کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا کمال یہ ہے کہ وہ امریکہ میں رہتے ہوئے پنجابی زبان کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے وہاں بہت سے عالمی سطح کے کامیاب پروگرام منعقد کئے جس میں پاکستان اور ہندوستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعروں اور ادیبوں کو مدعو کیا، کانفرنسز کرائیں، صوفی شاعروں پر لیکچر کرائے۔ پنجابی زبان میں ایک بہت بڑی فلم ’ورثہ‘ بنائی جس میں پاکستان اور انڈیا کے نامور فنکار شامل تھے جس کا گانا ’میں تینوں سمجھاواں کیہ‘ نصرت فتح علی خاں نے گایا اور پوری دنیا میں معروف ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ڈاکٹر صاحب کی سانس کے ساتھ پنجابی کی محبت شامل ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ گزشتہ دنوں کاروانِ ادب برطانیہ اور اردو ٹائمز یو کے نے مل کر ان کے اعزاز میں مانچسٹر میں ایک بہت بڑے جشن کا اہتمام کیا جس کا مقصد ڈاکٹر امان اللہ کی پنجابی زبان و ثقافت کے حوالے سے خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔ اس جشن میں پاکستان سے سہیل وڑائچ، ڈاکٹر صغرا صدف، آغا نثار، ڈاکٹر محمود پاشا، پروفیسر بہاول شیر، آفتاب مضطر کے علاوہ برطانیہ کے مختلف شہروں سے نمایاں شاعروں اور ادیبوں نے شرکت کی۔ اس جشن کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس کا ایک حصہ برطانوی پارلیمنٹ ہائوس میں رکھا گیا جو ایک بہت بڑی تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ شیڈو ہوم منسٹر راجا افضل خان نے برطانوی پارلیمنٹ میں ڈاکٹر امان اللہ اور دیگر مہمانوں کے اعزاز میں ایک شاندار استقبالئے کا اہتمام کیا جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی۔ بنیادی طور پر جشنِ امان اللہ اور عالمی پنجابی مشاعرے کے روحِ رواں صابر رضا، طاہر چودھری اور سکندر نواز تھے۔ صابر رضا خود بہت بڑے شاعر اور ادیب ہیں۔ ان کی اب تک اردو اور پنجابی میں کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور وہ کئی ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ برطانیہ میں رہتے ہوئے انہوں نے بھی ہمیشہ اپنے وطن کی مٹی کی تہذیب کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ پنجابی زبان سے ان کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ طاہر چودھری اگرچہ اردو ٹائمز اخبار نکالتے ہیں لیکن وہ بھی پکے پنجابی ہیں اور پنجابی زبان سے شدید محبت رکھتے ہیں۔ ان دونوں شخصیات نے پچھلے چار پانچ سال سے مل کر پروگرام کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے وہ بہت خوش آئند ہے۔ اس سال جشن امان اللہ یقینا ایک بہت بڑی تقریب تھی جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی اور وہاں رہنے والے ادیبوں، شاعروں نے بھی اس کی بھرپور پذیرائی کی۔ بات ہو رہی تھی ڈاکٹر امان اللہ کی تو ڈاکٹر صاحب کی شاعری پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم پچاس سال پہلے کے پنجاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ ان کی کتابوں کے نام ’’مُکر گئیاں نیں چھاواں‘‘ اور ’’کھِلر گئیاں نیں راہواں‘‘ ایک طرح سے اپنے ماضی کی یادوں کے آئینے میں جھانکنے کی بات کے ساتھ ساتھ اسی پنجاب کی تلاش بھی ہے جو آج کم کم نظر آتا ہے۔ وہ قدریں، وہ اپنا پن، وہ محبتیں، وہ شرارتیں، وہ رشتے داریاں، دوستیاں، کھیل کود جو ہم سے بچھڑ گئے ہیں وہ ان کتابوں میں موجود ہیں۔ آئیے اپنے ماضی کی طرف لوٹ کر دیکھیں اور اپنے حال کو خوشگوار بنائیں۔ ہمارا ماضی ہی ہماری پہچان ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024