؎سینیٹر ڈاکٹر جہانگیر بدر(مرحوم) سے میری پہلی ملاقات میرے آبائی گائوں کے ہی دوست میاں کلیم اختر (مرحوم) کی وساطت سے نیویارک میں ہوئی۔ بعدازاں بدر صاحب نے اس ملاقات کا شہید بی بی بے نظیر بھٹو سے تذکرہ کیا۔ میں ان دنوں پی پی پی سوئٹزرلینڈ کا صدر تھا۔ تب بی بی شہید نے بدر صاحب کو میرے پاس دوبارہ ملنے کیلئے سوئٹزرلینڈ جانے کو کہا مگر سوئس ایمبیسی سے وقت پر ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے بدر صاحب جرمنی کے شہر بادن بادن پہنچ گئے اور ٹیلی فون پر مجھے بھی درخواست کی کہ میں بھی جرمنی پہنچوں۔ پی پی پی جرمنی کے اس وقت کے صدر نقوی صاحب کے ریسٹورنٹ پر ملاقات طے پائی، جہاں ہم نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور انکے شوہر آصف علی زرداری صاحب کی رہائی کیلئے کچھ منصوبے تیار کیے۔ پاکستان جا کر بدر صاحب کسی کیس کے سلسلے میں مصروف ہو گئے تو بی بی شہید کو پریشانی لاحق ہوئی تو انہوں نے ’’مساوات‘‘ اخبار کے اس وقت کے چیف ایڈیٹر اور بعدازاں سینیٹر جناب سجاد بخاری صاحب کو میرے پاس سوئٹزرلینڈ بھیج دیا، جہاں ہم نے مشن آصف علی زرداری کو حتمی شکل دی اور میں تھوڑے ہی دنوں بعد سوئٹزرلینڈ سے ایک انوسٹی گیشن ٹیم لے کر پاکستان پہنچ گیا۔ ہمارا یہ سفر اور پلان نوازشریف کے بطور سول ڈکٹیٹر اقتدار پر پہلا باضابطہ حملہ تھا، جس نے آگے چل کر نوازشریف کو سیاسی طور پر کمزور کیا اور بالآخر 1999ء میں اقتدار کے خاتمے کا باعث بنا۔ اس کامیابی کے صلے میں شہید بی بی نے مجھے فیڈرل کونسل کا ممبر بنا دیا اور بطور جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر صاحب کو کہا کہ وہ میرا نوٹیفکیشن جاری کریں مگر بی بی شہید کے متعدد دفعہ یاد دلانے پر بھی جہانگیر بدر تذبذب سے کام لیتے رہے، جس پر ایک دن جھنجھلا کر شہید بی بی نے حکم دیا کہ مجھے پندرہ منٹ میں مطلوب وڑائچ کے نوٹیفکیشن کی کاپی ملنی چاہیے۔ یاد رہے یہ تمام تر احوال بعدازاں جہانگیر بدر صاحب نے مجھے خود سنائے اور پھر میں اور بدر صاحب انتہائی قریبی دوست بن گئے۔ پھر جہانگیر بدر کو سیف الرحمن کے احتساب کمیشن نے گرفتار کر لیا اور ان کی رہائی کیلئے ہم نے جدوجہد شروع کر دی اور پھر سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ شیخ محمد اکرم اور راقم نے مل کر جنیوا سوئٹزرلینڈ میں عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے جہانگیر بدر کا کیس پیش کیا اور ہم عالمی عدالت انصاف کو جہانگیر بدر پر ہونیوالے مظالم سے بھی آگاہ کیا۔ بعدازاں میں پاکستان مستقل شفٹ ہو گیا اور بدر صاحب کی اور آصف علی زرداری صاحب کی رہائی کیلئے تحاریک شروع کیں اور پھر جس دن جہانگیر بدر صاحب کو جیل سے ضمانت ملی ہم دونوں بائی روڈ لاڑکانہ پہنچے اور بھٹو شہید کی قبر پر حاضری دی اور یوں ہم نے پاکستان کے طول و ارض میں پی پی پی کی بکھری ہوئی قوت کو مجتمع کرنے کا کام شروع کیا۔ شہر شہر ، گائوں گائوں پی پی پی کے سوئے ہوئے جیالوں کو جگانا ہمارا ہدف تھا۔ پاکستان کا کوئی بھی شہر ایسا نہیں تھا جدھر ہم نے نئے سرے سے پی پی پی کو قوت بخشی جس دن 2005کو مظفر آباد زلزلہ آیا تھا ہم اس سے دو دن پہلے چوہدری مجید، چوہدری یاسین اور صاحبزادہ اسحاق ظفر (مرحوم) کی دعوت پر دو دن مظفر آباد میں پارٹی کے جلسوں اور اجتماعات میں خطاب کیا۔ بلوچستان پی پی پی تِتر بِتر ہوچکی تھی۔ شہید محترمہ کو اس کی بڑی پریشانی تھی انہوں نے جہانگیر بدر اور راقم پر مشتمل دو رکنی کمیٹی بنا کر نواب لشکری رئیسانی کے پاس بھیجااور ہم نے نواب آف ساراوان کے ہاں قیام کیا اور پی پی پی بلوچستان کے عمائدین کی آپس میں صلح کروائی ۔ پھر جب نواب اکبر بگٹی قتل ہوئے تو اسی کمیٹی کو دوبارہ تعزیت کیلئے نامزد کیا کہ بگٹی ہائوس کوئٹہ جائے ۔ اسکے علاوہ جانگیر بدر صاحب اور مجھے متعدد دفعہ یورپ، امریکہ، انگلینڈ اور دوبئی اہم مشنز کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا جو الحمد اللہ ہم نے کامیابی سے اہداف حاصل کیے۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اندرونی سیاست میں میری اور بدر صاحب کی مخالفت شدت پکڑتی گئی۔ بدر صاحب کا تعلق چونکہ اندرونِ لاہور سے تھا اور وہ اسی شہر سے ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹر منتخب ہوتے رہے۔ پارٹی کے اندر تدریسی سرگرمیوں کا آغاز محترمہ کی خواہش پر ہم دونوں نے مل کر کیا لیکن لاہور میں موجود جاگیر دار، نواب زادے، سرمایہ دار اور تاجر جو پارٹی میں داخل ہو چکے تھے، انہیں مڈل کلاس طبقہ سے تعلق رکھنے والے جہانگیر بدر سے خوف آتا تھا۔ خود راقم نے بھی انکے کالموں پر مشتمل ’’گرینڈ ایجنڈا اور پاکستان‘‘ کے نام سے کتاب تالیف کی جسے اپنی پیاری بھابھی رخشندہ جہانگیر بدر کے نام ڈیڈیکیٹ کیا۔ میرا سب سے کامیابی سیاسی شاگرد بھی ہے۔ ایک موقع پر شہید بی بی نے بدر صاحب کو کہا کہ ملک غلام مصطفی کھر کو دوبارہ پارٹی جوائن کروا دیں اور مجھے حکم دیا کہ میں بدر صاحب اور کھر صاحب کی خفیہ ملاقات اپنے گھر جوہر ٹائون میں کرا دوں۔ میں نے بی بی کے حکم پر عمل کیا اور پھر نواب زادہ صاحب کی اے آرڈی میں مجھے پی پی پی کے حصے میں اے آرڈی اوورسیز کا صدر بنا دیا گیا۔ پارٹی میں بڑھتی مخالفت کے پیش نظر راقم اور بدر صاحب نے اپنے دوستوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے ایک گروپ تشکیل دیا ،جسے گریٹ سیون کا نام دیا گیا ۔اس میں سابق وفاقی وزیر محمد افضل سندھو، سابق وفاقی وزیر قیوم نظامی صاحب، ممبر فیڈرل کونسل چوہدری اسلم گِل، ممبر فیڈرل کونسل مہر بدرالدین چوہدری، چوہدری سعید مزنگ والے، جہانگیر بدر اور راقم شامل تھے۔جہانگیر بدر اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ انکے پاس دوستوں کی ایک وافر مقدار موجود تھی ، خاص طور پر طیفی بٹ، طارق وحید بٹ، امتیاز فاروقی، وحید ،فضل شاہ اور وسیم حسن جیسے وفادار دوستوں کا ساتھ حاصل رہا جبکہ وکلاء میں تنویر ہاشمی، حنیف طاہر انکے قریبی ساتھی تھے ۔ آج 13نومبر ہے اور سینیٹر ڈاکٹر جہانگیر بدر کی دوسری برسی ہے ۔قارئین اور پیپلزپارٹی کے جیالوں اور جہانگیر بدر کے چاہنے والوں کیلئے خوشخبری کہ میری جہانگیر بدر کے ساتھ اپنی بے شمار یادوں پر مشتمل ایک کتاب جلد ہی شائع ہو رہی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024