ایک عورت جس سے اس کا انتہائی محبت کرنے والا شوہر چھن جائے، اُس کے آگے پوری دُنیا بھی لا کر رکھ دی جائے تو اُس کی خوشیاں واپس نہیں آ سکتیں۔ یہ دنیا ، مال و متاع، عیش و عشرت، اقتدار ایک شوہر پرست، وفادار اور چاہنے والی بیوی کے لئے ہیچ ہے۔ میں آج یہ کالم آنسوئوں کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔ یہ 8 ۔ نومبر کا منحوس ترین دن تھا۔ میری بہن ناشتہ تیار کر رہی تھیں۔ میری بہن ، بہنوئی بیڈ ٹی کے بعد تقریباً گیارہ بجے ناشتہ کرتے تھے۔ میرے بہنوئی ایچی سن سے ریٹائر ہوئے تھے۔میرے بہنوئی نے باجی سے کہا کہ عائشہ تم ناشتہ تیار کرو۔ میں سامنے بنک میں بِل جمع کرا کے آتا ہوں۔ میری بہن نے کہا کہ چلئے میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔ ہم آ کر ناشتہ کر لیں گے۔ باجی اور میرے بہنوئی گھر کے بالکل قریب ہی اقبال ٹائون، مون مارکیٹ میں بنک پیدل چل پڑے۔ درمیان میں ا یک سڑک تھی۔ جب وہ فٹ پاتھ پر پہنچے تو میری بہن نے بہنوئی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ میرے بہنوئی نے فٹ پاتھ سے اُتر کر ابھی دو قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ ایک موٹر سائیکل والا اچانک تیزی سے آیا اور میرے بہنوئی کو پوری طاقت سے ٹکر مار کر اگلے سیکنڈ میں غائب ہو گیا۔ اُس وقت سڑک صاف تھی وہ بدبخت بدکار یکایک نمودار ہوا اور اُسی وقت بھاگ گیا۔ موٹر سائیکلوں ، رکشوں ، تانگوں کے لئے سڑک کے بائیں طرف چلنے کا قانون ہے لیکن وہ انتہائی دائیں سے آیا اور خبیث روح کی طرح بھاگ گیا۔ میرے بہنوئی ایک لمحے کے دسویں حصے میں بڑی بے رحمی سے سڑک پر سر کے بل گرے اور صرف دس منٹ میں انہوں نے جان دیدی۔ اُنکی ناک کانوں اور سر سے خون بہنے لگا۔ میری بہن نے اپنے سر کے تاج کو اپنی آنکھوں کے سامنے جان دیتے ہوئے دیکھا تو بیہوش ہو گئیں۔ شاپنگ پر آئی کچھ عورتوں نے اُنہیں سنبھالا۔ کسی نے موبائل ہاتھ سے لیکر میری چھوٹی بہن کو کال کی۔ وہاں موجود لوگوں نے 1122 پر متعدد کالیں کیں۔ مون مارکیٹ ، دوبئی چوک پر ایمبولینس سروس ہے۔ سامنے بہت بڑا پولیس سٹیشن ہے۔ وہیں ڈولفن فورس کی دو موٹر سائیکلیں گھوم رہی تھیں لیکن نہ موقع پر پولیس پہنچی جبکہ صرف دس بارہ قدم پر پولیس سٹیشن تھا۔ نہ کوئی ایمبولینس پہنچی۔ نہ ڈولفن فورس جو صرف گاڑی کی قیمت والی موٹر سائیکلوں پر صرف سیر سپاٹے کرتے ہیں، انہوں نے کچھ کیا۔ مون مارکیٹ کی روڈ پر صرف ایک منٹ میں ایک ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔ نہ ہی کوئی گاڑی رُکی کہ انہیں بروقت طبی امداد مل جاتی۔ اُنکا خون رُک جاتا۔ انہیں آکسیجن مل جاتی۔ جب میری چھوٹی بہن انہیں لیکر شیخ زید پہنچی تو وہ راستے میں دم توڑ چکے تھے۔ ہاسپٹل کی تمام مشینیں اُنکے ساکت ہونے کا بتا رہی تھیں۔ باجی کو وہ عورتیں گھر پہنچا کر آئیں۔ ہاسپٹل میں پولیس پوسٹ مارٹم کے لئے امداد کرتی رہیں۔ میں نے سختی سے منع کیا کہ ہمارا بھائی مر گیا۔ اب ہم اسے مزید تکلیف نہیں دے سکتے۔ اس لئے خبردار جو کسی نے پوسٹمارٹم کیا۔ پھر بھی جعلی بنائوٹی اورمصنوعی کارروائیوں کے بعد ہاسپٹل سے پانچ گھنٹے بعد میت واپس ملی۔ مجھے ایک بجے پتہ چل گیا تھا کہ میرے پیارے اور دنیا کے سادہ اور بے ضرر، بے لوث انسان ہم سے بچھڑ چکے ہیں لیکن میری ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ اپنی معصوم فرشتہ صفت بہن کو یہ اذیتناک خبر سنائوں۔ میں نے خود پر بہت ضبط کر رکھا تھا لیکن ڈھائی بجے میری بہن نے کہا کہ مجھے تو اُسی وقت خبر ہو گئی تھی جب میرے شوہر کے کانوں اور سر سے خون بہا تھا کہ وہ میرا ہاتھ چھڑا کر جا چکے ہیں۔
اس کے بعد ہمارے گھر میں قیامت برپا ہوگئی۔ وہ منحوس ترین لمحہ تھا جب میری بہن کی شفاف پیشانی پر بیوگی کا داغ لگ گیا اور ہم چاروں بہنیں اپنے بھائی جیسے بڑے بہنوئی سے محروم ہوگئے ۔ میری بہن کی حالت ایسی تھی جیسے مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی ہے ۔ وہ انتہائی کم گو اور شرمیلی ہیں لیکن اس دن اور پوری رات وہ دیوانوں کی طرح بولتی رہیں ۔ میرے بھانجے نے ابھی الیکٹریکل انجینئرنگ کی تھی ۔ وہ ابھی صرف بائیس تیئس سال کا ہے۔ وہ انتہائی سنجیدہ اور سلجھا ہوا بچہ ہے ہم نے اسے کبھی روتے یا فالتو بات کرتے نہیں دیکھا… اور آج پانچ دن سے وہ لڑکا پھوٹ پھوٹ کر رو رہا ہے۔ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا بالکل ٹوٹ کر رہ گیا ہے … باجی کی دونوں بیٹیاں اپنے بھائی سے لپٹ جاتی ہیں ۔ ایک ہنستا بستا گھر ایک بد بخت ناہنجار منحوس موٹرسائیکل والے نے اجاڑ کر رکھ دیا۔ خدا کرے کہ یہ آدمی ساری زندگی اپنے اس گناہ اور جرم کی آگ میں جلے ۔ میرے بہنوئی اتنے نیک تھے کہ ان کا پوراچہرہ صاف شفاف اور پرنور تھا کہ حادثے کے ٹھیک بارہ گھنٹے بعد انہیں دفنایا گیا لیکن ان کے چہرے پر کہیں مردہ پن نہیں تھا ۔میری بہن اور بھانجا بھانجی جس کرب اور اذیت میں مبتلا ہیں اور جس طرح ان کا گھر ٹوٹا ہے تو سٹی ٹریفک پولیس بتائے کہ کیا انکی یہی کارکردگی ہے کہ وہ آج تک وہ موٹرسائیکل ، رکشوں ، چنگ چیوں اور تانگوں چھکڑوں کا روٹ نہیں بنا سکے۔
سڑکوں کے بیچوں بیچ موٹرسائیکل چلاتے انہیں کوئی نہیں پکڑتا کوئی انکا چالان نہیںکرتا۔ حد تو یہ ہے کہ ہر شخص ڈرائیونگ کے دوران موبائل نہ صرف سن رہا ہوتا ہے بلکہ باقاعدہ میسج بھی کر رہا ہوتا ہے ۔ پرسوں کی تازہ خبر میں پنجاب بھر میں 856ٹریفک حادثات ہوئے ہیں جس میں 30افراد ہلاک اور 941زخمی ہوئے ہیں ۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ پر ہیں وگرنہ حادثات ان سے چار گناہ زائد ہوتے ہیں۔ یہ جتنے حادثات ہوتے ہیں اس کی ذمہ دار سٹی ٹریفک پولیس ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024