تابکاری …انسانیت کے لیے فوائد اور منسلک خوف

May 13, 2025

ڈاکٹر عاکف اللہ خان (تمغہِ امتیاز)

تابکاری یا ریڈی ایشن(RADIATION)ہمیشہ سے دلچسپ مگر تشویش انگیزموضوع رہا ہے۔ اگر چہ اس نے طبی ترقی ، توانائی کی پیداوار اور سائنسی پیشرفت میں بے حد مدد کی ہے۔ لیکن اس کا خوف تباہ کاریوں ، ماحولیاتی آلودگی اور صحت کے خطرات سے بھی منسلک  ہے۔ ریڈی ایشن کا خوف ، جسے "ریڈیو فوبیا" کہا جاتا ہے، عوامی خیالات ،پا لیسیوں اور یہاں تک کہ ثقافتی بیانیے کو بھی متاثر کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک "ریڈی ایشن ڈسٹوپیا" پیدا ہوتا ہے، یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جہاں ریڈی ایشن کا بے جا خوف عقلی بحث ، سائنسی ترقی اور اس کے مفید استعمال کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔دوسری جنگِ عظیم میں جب امریکہ نے دشمن کو زیر کرنے کے لئے نیوکلئیرسائنس کو استعمال کیا۔تو اس ٹیکنالوجی کی تباہی نے نوع انسانی کی نفسیات کو بہت متاثر کیا اور اس کے فوراً بعد ہی ریڈی ایشن سے ڈرانے والی فِکشن نے زور پکڑا جو کہ آج تک مختلف صورتوں میں بنائی اور دیکھی جا رہی ہیں۔ ان فکشن تحریروں ، فلموں نے عوام کے ذہن میں تابکاری کا ایک انتہائی منفی تاثر پیدا کیا جس میں ایٹمی سائنسدانوں  کے کرداروں کو بھی محبوط الحواس دکھایا جاتا رہا ہے۔ اگر چہ ان فکشن تخلیق کاروں کا مقصد لوگوں کو ایٹمی ہتھیاروں اور جنگ سے متنفر کرنا تھا لیکن بعد میں اس کا منفی پہلو یہ نکلا کہ لوگ ریڈی ایشن اور تابکاری سے خوف کھانے لگے۔اِس بات سے قطعاًکسی کو بھی انکار نہیں کی ریڈی ایشن یا تابکاری سے ممکنہ حد تک بچنا اَز حد ضروری ہے۔ لیکن اس زمین پر رہتے ہوئے قدرتی طور پر بھی ہم ریڈی ایشن سے مکمل طور پر بچ نہیں پا رہے ہوتے۔ کیونکہ خلا ء￿  سے متواترکم مقدار میں تابکاراثرات زمین پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ تابکاری ہمارے ارد گردہمیشہ موجود رہتی ہے جو زمین سے خارج ہو رہی ہوتی ہے۔اس طرح ہم میں سے ہر انسان شکمِ مادر سے ہی اوسطاً دو سے تین ملی سیورٹ(2-3mSv)  ریڈی ایشن سالانہ حاصل کرتا ہے۔پچھلے سو سالوں سے ہم نے اس تابکاری کے کئی فوائد حاصل کرنا شروع کئے ہیں۔ جس کی بہترین مثال  Rays - Xکی مدد سے بدن کے اندر کی جانچ ہے۔ بعد میں کئی اور جدید تیکنیکس بھی ایجاد ہوئیں۔  جیسے سی ٹی سکین ( Scan  CT.)نیوکلیر سکین، پیِٹ سکین اور ان تمام ٹیکنالوجی سے ہمیں بیمار یوں کے بارے میں بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملا۔بعد ازاں ریڈیو تھراپی یعنی شعاعی علاج سے کئی طرح کے موذی سرطانوں(کینسرز) سے چٹکارا پانا بھی سیکھا گیا۔آج کل بیشتر ملکوں میں قدرتی یا مصنوعی طور پر پیدا کی گئی شعاعوں سے کینسر کے اکثر مریضوں کا علاج بھی ہو رہا ہے۔طبی استعمال کے علاوہ ایٹمی ڈرائع سے بجلی بھی بنائی جاتی ہے اور زرعی تحقیق میں بھی اس ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہے۔ نیوکلئیرسائنس کی ان عظیم ایجادات کو ہم آج اپنی زندگی سے نکال کر باہر کریں تو شائد ہماری زندگی بے حد مشکلات کا شکار ہو جائے۔  تابکاری   کے حوالے سے خوف اس لئے بھی ہے کہ ہماری عوام اس کے بارے میں بہت کم علم رکھتے ہیں۔اگر پاکستان کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری عوام کو جو تابکاری سے خوف ہے اْس کی نوعیت مغرب میں پائے جانے والے خوف سے مختلف نہیں۔ یہ خوف غلط فہمیوں ، ریڈی ایشن کی نو عیت کے بارے میں علم کی کمی، اور تابکاری کو کینسر جیسی مہلک بیماری سے جوڑنے کی وجہ سے بڑھتا ہے۔ اگر چہ زیادہ مقدار میں ریڈی ایشن کاسامنا یقینا نقصان دہ ہوسکتا ہے لیکن طب، صنعت اور توانائی میں اس کا کنٹرول شدہ اور منظم استعمال محفوظ اور فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔عوام کے خوف کو اکثر غلط معلومات اور سنسی خیزی سے بھڑکا یا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے لوگ کسی بھی قسم کی ریڈی ایشن کو صحت کے لئے مضر سمجھتے ہیںریڈی ایشن ڈسٹوپیا ایک ایسا معاشرہ ہے جہاںریڈی ایشن خوف پالیسی سازی پر حاوی ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں سخت قوانین ، جوہری  توانائی کی مخالفت اور زندگی بچانے والی ٹیکنالوجیز کے خلاف مزاحمت دیکھنے میں آتی ہے۔ ایسے معاشرے میں حکومتیں اور تنظیمیں ریڈی ایشن سے متعلقہ ٹیکنالوجیز پر غیر ضروری سخت پابندیاں عائد کر سکتی ہیں جس سے تحقیق ، ترقی  اور جوہری ٹیکنالوجیز کے مثبت استعمال میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال جوہری  توانائی کے خلاف تحریکیں ہیں اگر چہ جوہری توانائی  دینا کے سب سے زیادہ ماحول دوست اور باکفایت توانائی کے ذرائع میں سے ایک ہے لیکن خوف کی وجہ سے کئی ممالک نے جوہری منصوبے ترک کر دیئے ہیں جس کے نتیجے میں ماحولیاتی اور توانائی کے مسائل مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ اس طرح خوف پر مبنی  پالیسیاں نیوکلئیر میڈیسن کی ترقی میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہیں جو کہ کینسر کے  تشخیص اور علاج اور کے لئے نہایت ضروری ہے۔ احتیاط اور ترقی کے درمیان توازن اگر چہ ریڈی ایشن کے حقیقی خطرات کو تسلیم کرنا ضروری ہے لیکن غلط معلومات کے خلاف لڑنا  اور عوام کے خدشات کو سائنسی شواہد کے ساتھ دور کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ تعلیمی مہمات ، واضح خطرات کی وضاحت اور میڈیا کی ذمہ داری ریڈیو فوبیا کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔حکو متی پالیسیاں عوامی خوف کے بجائے سائنسی ڈیٹا پر مبنی ہونی چاہئیں تاکہ جوہری ٹیکنالوجی کو محفوظ اور موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔اس سلسلے میں میڈیکل ماہرین ، سائنسدانوں اور پالیسی سازوں کو مل کر کام کرنا چاہئے تاکہ ریڈی ایشن کو صرف ایک خطرہ نہیں بلکہ ترقی کے ایک اہم عنصر کے طو ر پر سمجھا جائے۔ کھلی بحث کی حوصلہ افزائی، اخلاقی خدشات کو حل کرنا اور محفوظ ریڈی ایشن ایپلیکیشنز کی تحقیق کو فروغ دینا اس بات کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے کہ معاشرہ ریڈی ایشن ڈسٹوپیا میں  مبتلا نہ ہو۔
( مضمون نگارڈاکٹر عاکف اللہ خان (تمغہِ امتیاز) ، ملک کے نامور نیوکلئیر فز یشن ہیں اور اس وقت بطور ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف ریڈیوتھراپی اینڈ  نیو کلئیر میڈیسن( ارنم) (IRNUM) پشاور میں خدمات انجام دے رہے ہیں

مزیدخبریں