انتخابی اصلاحات درست لیکن سیاسی استحکام مقدم
مسلم لیگ نواز کے قائد میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر وزیر اعظم اور مسلم لیگ نواز کے صدر محمد شہباز شریف نے لندن میں ان سے ملاقات کی۔ جس میں معیشت کی بحالی اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔ ملاقات میں تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ نواز شریف نے آئینی اصلاحات کا عمل مکمل کرنے، عام انتخابات کے لیے جماعتی سطح پر تیاریاں کرنے اور پارٹی کو منظم کرنے کی ہدایات بھی دیں۔ ملاقات کے بعد مسلم لیگ نواز کا مشاورتی اجلاس بھی ہوا جس میں اسحاق ڈار، خواجہ آصف ، ایاز صادق، رانا ثناء اللہ، سعد رفیق، مریم اورنگزیب اور احسن اقبال سمیت دیگر رہنمائوں نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت نواز شریف نے کی۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب کے مطابق اجلاس میں موجودہ حکومت کو درپیش سنگین معاشی، آئینی و انتظامی بحرانوں پر نواز شریف کو تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ حکومتی ٹیم نے معاشی حقائق کی روشنی میں مستقبل کے اقدامات پر اپنی آراء پیش کیں اور یہ طے کیا گیا کہ معیشت سنبھالنے کے لیے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اور دیگر رہنمائوں کی کرپشن عوام کے سامنے لانے اور آئین شکنوں سے قانون کے مطابق نمٹنے پر اتفاق ظاہر کیا گیا۔
حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے البتہ دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ انتخابی اصلاحات تک الیکشن میں نہیں جائیں گے۔ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن سے نہیں ڈرتے لیکن جلد کروا لئے جائیں گے۔ نواز شریف بھی اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک انتخابی اور نیب اصلاحات نہیں ہو جاتیں انتخابات میں نہیں جائیں گے۔ کوشش کریں گے کہ نیب کا غلط استعمال نہ ہو، اس میں غیر سیاسی آفیسرز رکھیں گے۔ سابق صدر کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جوبائیڈن میرا دوست ہے۔ امریکی دھمکی سے متعلق مراسلہ پی ٹی آئی نے خود تیار کیا ہے، اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو امریکی صدر ضرور مجھے فون کرتا۔ الیکٹرول اور نیب ریفارمز ہمارے گیم پلان کا حصہ ہیں۔ تین سے چار ماہ لگیں گے، اتحادیوں کے ساتھ مل کر صورتحال کنٹرول کریں گے۔اگر پارلیمنٹ چاہتی ہے الیکشن میں جانا چاہئے تو ہمیں کوئی ایشو نہیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ممکن ہے نئے آرمی چیف کے تقرر سے قبل ہی انتخابات کروا دئیے جائیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے انتخابات کروا دئیے جائیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نومبر سے پہلے نگران حکومت آئے جس کے جانے کے بعد ہی نئی حکومت بھی آ جائے۔
قومی مسائل پر مشاورت ، سوچ بچار اور غورو فکر یقینی طورپر خوش آئیند ہی نہیں وقت کی اہم ضرورت بھی ہے لیکن کیا ہی بہتر ہوتا اگر مشاورت کا یہ عمل اپنی سرزمین پر ہو تا ۔ بہر حال اس تمام منظر نامے اور سیاسی قائدین کے بیانات سے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن گھمبیر معاشی مسائل اور آئینی و انتظامی بحرانوں کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کے لیے اجتماعی کاوش ہی بروئے کار لائی جا سکتی ہے۔ اس وقت حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی ہے۔ جس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل جل کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ عام انتخابات کی باتیں بھی گردش میں ہیں، خاص طور پر حکومت کی مخالف جماعت تحریکِ انصاف کا یہ بنیادی مطالبہ ہے کہ ملک میں فوری طور پر نئے انتخابات کا ڈول ڈالا جائے لیکن ان انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات ازحد ضروری ہیں، کیوں کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر نہ تو انتخابات کے عمل کو شفاف اور منصفانہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے نتائج قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔یوں تو ہر دور میں ہی انتخابات کے موقع پر انتخابی عمل میں اصلاحات کا مطالبہ منظر عام پر آتا رہاہے لیکن اس پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی۔ 2018ء کے انتخابات کو بھی اسی لیے متنازعہ اور مشکوک تصور کیا جاتا رہا ہے کہ ان میں شفافیت نہیں تھی، اس لیے انتخابات کو تمام جماعتوں اور طبقات کے لیے قابلِ قبول بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے انتخابی اصلاحات کی جائیں تاکہ اس کے بعد ایسا فول پروف سسٹم وجود میں آ سکے جس کے تحت ہونے والے انتخابات پر کوئی انگشت نمائی نہ کر سکے لیکن انتخابی اصلاحات کا عمل تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کے مشاورت سے ہی کیا جانا چاہئے۔ موجودہ انتخابی نظام اپنا اعتبار کھو چکا ہے ، اس لیے اس کے تحت ہونے والے انتخابات کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔ اس ضمن میں سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کو بھی دعوت دی جا سکتی ہے کہ وہ بھی اپنی آراء و تجاویز پیش کرے لیکن اگر ملک کے حالات ہی اس کے متقاضی ہو جائیں کہ انتخابات کا انعقاد قبل از وقت کرنا مجبوری بن جائے تو ایسی صورت میں بھی مشاورت سے فیصلہ کیا جائے اور ملک و قوم کے مفاد کو ہر حالت میں مقدم رکھا جائے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اس وقت جارحانہ موڈ میں ہے۔ اس کے قائدین جلسوں میں عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بڑے شدو مد کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اگر وہ اس مطالبے کے حق میں جلوسوں، ریلیوں اور دھرنوں کا راستہ اختیار کرتے اور امن و امان کی صورتِ حال خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسی صورت میں حکومت ، سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ آئینی اداروں کو بھی سوچ بچار کر کے کوئی قابلِ عمل راستہ نکالنا ہو گا۔ ملک اس وقت جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے ان میں انتشار، بدامنی اور لاقانونیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ملک کو سیاسی طور پر عدم استحکام سے بچانا بے حد ضروری ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام بھی نہیں آ سکتا۔ معیشت میں بہتری سیاسی استحکام ہی سے مشروط ہے۔ اس لیے ہمیں سیاسی استحکام کا قیام ہر حالت میں یقینی بنانا ہو گا۔