8’ محو ِحیرت ہوں ’جمہوریت‘کیا سے کیا ہوگئی‘

سیاسی سانس رواں رکھنے کیلئے حرکیات تو لازمی ہیں ۔ ایندھن نہیں ہوگا تو گاڑی کیسے چلے گی ؟ اور یہ کوئی ’’مال گاڑی‘‘ تو نہیں کہ ’’گدھے‘‘ بھی لادلیے اور کوئلے کی بوریاں بھی بھر دیں یہ انسانوں کی گاڑی ہے بلا تفریق تمام طبقات زندگی کی نمائندگی ۔ ’’قلمکار‘‘ کو واقعی غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ سچی رائے کا اظہار کرنا چاہیے ۔ جب وہ طمع ۔ چمک ایک وقت کے پُر تعیش سرکاری مال کے کھانے کا قیدی بن جائے تو پھر ’’آمریت‘‘ بھی ’’جمہوریت‘‘ لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ الحمد اللہ میری پارٹی ’’پاکستان‘‘ ہے میر ا نظریہ وہی ہے جو اِس ملک کی بنیاد بنا ۔ نہ کبھی قلم بِکا نہ عہدے کی پروا کی (آغاز سے اب تک کا لمز گواہ ہیں)بات شخصیات کی نہیں ۔ آواز کی ہے جو لمحہ موجود میں ہر پاکستانی کی آواز بن چُکی ہے۔ بیرون ممالک غیر ملکی اُس نظریہ کے حامی ہیں جو ہر دل کی تمنا ہے۔ آزادی کیلئے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں ۔ عصمتیں لٹوائیں ۔ گھروں ، دکانوں کی الاٹ منٹ کیلئے نہیں ۔ متحدہ برصغیر میں وہ زیادہ خوشحال تھے ۔ سکون کی زندگی گُزار رہے تھے ۔ مگر غلام تھے۔عزت کی بحالی اور غلامی سے آزادی کے واسطے آگ و خون کے سمندر تیر کر پاک وطن آئے یہ اتنا آسان سفر نہیں تھا مگر آزادی کا جذبہ ۔ لگن بالاتر رہا ۔ اُسکے بعد کی زندگی جو دیکھی تو وہ سفر آسان معلوم ہونے لگا ۔ خواب ٹوٹ گئے ۔ تعبیر بڑی بھیانک نکلی ۔ ہر گزرتا پل عوام کیلئے دشوار ترین ہوتا گیا اور اشرافیہ کیلئے سہل ترین ۔ جس کے پاس بھی روپیہ آیا اُس نے طاقت خرید لی۔ ایوانوں کو بھی خرید و فروخت کے مراکز میں بدل دیا ظالموں نیدولت + طاقت اب ’’کارٹلز مافیا‘‘کی صورت غریب ممالک پر سریر آرائے اقتدار ہیں ۔
کچھ سالوں سے تو گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس ہوتا تھا ۔ سفید جہاز سائز گاڑیاں عقب میں کالی گاڑی میں اسلحہ بردار ؟ ہاتھوں سے ہٹو بچو کے اشارے کرتے ہوئے ۔ کوئی بھی آئین کھول لیں ۔ جمہوریت کی تعریف و تشریح پر چھپی انگنت کتابیں کھنگال ڈالیں کہیں بھی جمہوری چہروں میں غنڈہ گردی پڑھنے کو نہیں ملے گی ۔ کیا ہمیں ایسی جمہوریت چاہیے جو بدمست کر دے۔ جو عوام سے غافل کر دے جو ’’اقتدار‘‘ کو ’’کرپٹ‘‘ کر دے ۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے جب وقت آتا ہے اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومنے پھرنے کا تو اپنے دیرنیہ ورکرز یا پارٹی کے ہمہ وقت دائیں بائیں کھڑے رہنماؤں کو آگے نہیں لاتے اُنھیں کوئی صدر ۔وزیراعظم نہیں بناتا۔ بہت کم مواقع دیکھے وہ بھی تب جب کوئی قانونی ۔ آئینی بندش کا سامنا ہوا۔اکثریتی وقت اپنے خاندان کو فرنٹ پر رکھا۔
محو حیرت ہوں کہ ’’جمہوریت ‘‘ کیا سے کیا ہوگئی ۔ 20سال تو بہت طویل عرصہ ہے بس ’’10برس‘‘ کے اخبارات پڑھ لیں ابھی تک وہ ردی نہیں ہوئے کیونکہ کچھ بھی نہیں بدلا نہ انداز نہ لُوٹ مار ۔ برقیاتی ٹِکرز ملا حظہ کر لیں ہنوز ہم بیوقوف ہیں ووٹ بینک ہیں ۔ ’’وہ‘‘ مفادات بینک ہیں ۔ ہم محکوم۔ وہ واقعی طاقتور کلاس ۔ سوچئیے آئین و قانون میں مقید اور ہر قسم کی بندشوں سے آزاد دو طبقات کا کیا مقابلہ جو جیت جائے وہ جمہوریت کی فتح ۔ جس کے حق میں فیصلہ آجائے وہ قانون کی بالادستی ۔ موروثی خاندانوں کے باپ ‘ دادا ‘ بیٹے‘ بیٹیاں ہی جمہوریت کا نام ہے۔ اِس راہگزر میں کِسی غیر خاندان کا داخلہ ممنوع ہے۔ اِس راہگزر میں حق سچ کا اظہار جُرم ہے ا،س راہگزر میں عوام دوستی تقاریر کی حد تک عوامی مسائل کے حل کیلئے ارادہ کرنا ناممکن نیت عنقا وسائل کی بانٹ میں سب متحد ۔ مستعد ۔ ایک صفحہ پر۔
بڑے محتاط مگر جاندار الفاظ میں ’’خان صاحب‘‘ نے پیغام دیدیا الیکشن کی اگر فوری تاریخ کا اعلان نہ ہوا تو بالآخر ’’اسلام آباد‘‘ کی کال تو دینگے سیاست تو کرنی ہے نوٹ کرلیں یہ ’’کال‘‘ سابقہ دھرنوں جیسی نہیں ہوگی اب عوام کا موڈ اور دماغ بہت اشتعال میں ہیں کیا بوڑھا کیا بچہ کوئی بھی گھر میں نہیں بیٹھے گا ’’جلسہ‘‘ نے ثابت کر دیا ۔ جائزہ 2013مقبولیت کا گراف کافی بلند ۔ 2018میں جنون ۔ جوش جذبہ نے مل کر رنگ جما دیا اِسکے باوجود جلسوں میں اتنے لوگ نہیں ہوتے تھے پر اب تو مناظر ہی بے حد منفرد ۔ تاریخی بن چکے ہیں ۔ مداخلت ہے یا سازش ۔ بڑا تلخ سچ کہ روز اول سے ہماری پاک دھرتی مداخلت اور سازش کی شکار رہی ہے۔ وہی پُرانی باتیںخزانہ خالی ملا ۔ سابق حکومت کی نا اہلی سے معیشت ڈوب گئی۔ سابق حکومت کی نالائقی سے کارخانے بند ۔ ڈالر بلند ۔ قارئین یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر نئی حکومت کہتے کہتے ’’سابق‘‘ ہو جاتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ ختم، مہنگائی کم کرنے کی جمہوری وعدوں کے باوجود دونوں عروج پر ۔ جمہوریت کی کونسی شق اجازت دیتی ہے کہ عوامی تائید سے اختیار حاصل کرنیوالے جُھوٹے دعوؤں سے عوام کو رُلائیں ۔
پسِ تحریر۔ شکر کسی نے تو جُرات کی ۔ قدم اُٹھایا ۔ اعشاریہ نظام میں رقوم کی ادائیگی کیخلاف ایک شہری عدالت پہنچ گیا ۔ بچپن سے اب تک پٹرول ۔بجلی۔گیس کی قیمتوں میں اضافہ صافی طاق عدد میں ہوتانہیں دیکھا ۔ روپوں کے ساتھ پیسے جو کبھی 40کبھی 20۔ اب پیسے جتنے بھی ہوں ’’پٹرول پمپس‘‘ والے پورا روپیہ کاٹتے ہیں۔ ’’70پیسے‘‘ لکھے ہوں تو ’’30پیسے‘‘ مانگتے ہوئے انسان شرم محسوس کرتا ہے۔ مارکیٹ میں کم سے کم ایک روپے کا سکہ زیر گردش ہے سوچئیے اِس ایک مد میں روزانہ کتنے کروڑوں روپے ہڑپ کر لیے جاتے ہیں۔ یہ معمول پہلے لازمی سروسز میں تھا اب برس ہا برس سے روزمرہ اشیاء میں بھی ’’چند پیسوں‘‘ کی موجودگی نے سٹور مالکان ۔ تاجر حضرات کا کھوٹا سکہ چاندی بنا دیا ہے۔ آغاز میں بقیہ پیسوں کے عوض (جب چھوٹے سکے نہیں ہوتے تھے) ٹافیاں یا ماچس کی چوائس دی جاتی تھی اب وہ بھی ہضم ۔ تاجر ۔ صنعت کار۔ گروسری سٹورز مالکان بھی عوام ۔ چند پیسوں کے نام پر روزانہ کئی مرتبہ لٹنے والے بھی عوام (اقتباس کالم عوام با مقابلہ عوام12نومبر 2021)۔