وزیراعظم کا دورۂ لندن اور نواز شریف کے تحفظات

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے دورہ لندن کو سیاسی حوالے سے انتہا ئی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کی جانب سے اچانک وزیراعظم کی طلبی کا پاکستان کی سیاست سے گہرا تعلق ہے۔خاص طور پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی جارحانہ اور سازشی الزامات پر مبنی سیاست اور معروضی حالات معاشی چیلنجز نے نواز شریف کو مجبور کیا کہ وہ اب براہِ راست فیصلے کریں۔ نواز شریف کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کے طرز سیاست پر خاصے برہم ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان کو آئین سے ماورا کیوں قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کی جانب سے سیاستدانوں اور اداروں کے سر براہان کو غدار قرار دینے پر بھی نواز شریف برہم ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان اقتدار سے محروم ہوکر انتشار پھیلا رہے ہیں۔ مسجد نبوی واقعے پر بھی نواز شریف کو شدید تحفظات ہیں۔ پنجاب حکومت کی تشکیل ،حمزہ شہباز کا حلف، صدر پاکستان عارف علوی اور گورنر پنجاب کی جانب سے آئین سے انحراف پر بھی نواز شریف کو شدید تحفظات ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے قریبی حلقوں میں برملا ان تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان اور ان کے حواریوں کی جانب سے اداروں کے سربراہان کے خلاف شرانگیز مہم کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں اور اس امر پر بھی تعجب کا اظہار کیا جارہا ہے کہ عمران خان کو کیوں اتنی چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ سب کو غدار قرار دے رہے ہیں اور ان کو کیوں نہیں روکا جارہا ؟
اسی طرح پاکستان کے معاشی چیلنجز پر بھی نواز شریف برہم ہیں کہ سابق حکومت نے ملک کو تقریباً دیوالیہ کردیا ہے نواز شریف کو شاید باور کرایا گیا تھا کہ جلد ہی ان کے اور مریم نواز کے خلاف کیسز کے فیصلے ان کے حق میں آجائیں گے اور وہ تمام الزامات میں بری ہوکر سرخرو ہوجائیں گے۔ تاحال اس حوالے سے بھی کو ہی پیشرفت نہیں ہوسکی، الٹا عمران خان کے جھوٹے پراپیگنڈے نے سب کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی تحفظات کا شکار ہیں جبکہ شہباز شریف اور ان کی کابینہ کی جانب سے دفاعی سیاست پر بھی نواز شریف سوالات اٹھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شہباز شریف اور دیگر کو لندن طلب کیا ہے تاکہ مشاورت کیساتھ مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ نواز شریف بیرون ملک میں بیٹھ کر بھی پاکستان کی سیاست کے بے تاج بادشاہ ہیں اور آئندہ کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی اس کا فیصلہ بھی نواز شریف سیاسی حکمت عملی سے مشروط ہے۔
اگر دوست ممالک اور آئی ایم ایف نے پاکستان کو سنگین معاشی بحران سے نکالنا ہے تو پاکستان میں سیاسی استحکام ناگزیر ہوگا لیکن عمران خان کے طرز سیاست نے مسلم لیگ (ن) کو اندرونی و بیرونی سطح پر شدید نوعیت کے مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ حالات کی سنگینی کا نواز شریف کو اندازہ ہو چکا ہے کیو نکہ دوست ممالک اور آئی ایم ایف کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان میں موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر چند ماہ کی حکومت کی مالی امداد نہ تو مالیاتی ادارے کریں گے اور نہ ہی دوست ممالک اس حوالے سے تعاون پر آمادہ ہوں گے۔ اس لیے سیاسی استحکام نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو سنگین مسائل کا سامنا ہوگا اور عمران خان بھی اسی لیے صورتحال کو بھانپ کر مسلسل جلسے کررہے ہیں اور اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کررہے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت سنگین معاشی مشکلات سے نکل گئی تو پھر عمران خان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا لیکن ان کے فیصلے کے اثرات پاکستان کی سیاست پر انتہا ئی گہرے ہوں گے۔
بہر حال اگر پاکستان میں معاشی استحکام لانا ہے تو نواز شریف کے تحفظات دور کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے اگر کو ہی سنجیدہ اقدام ہوا تو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف کارروائی کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں عمران خان کو گرفتار کرلیے جائے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ نواز شریف جن شرائط پر حکومت میں آنے کے لیے تیار ہوئے تھے وہ مسائل کے حل کے لیے کیے گئے عملی اقدامات کرنا تو در کنار ان مسائل کو مزید بڑھایا جارہا ہے۔ نواز شریف اس طرز عمل سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ نواز شریف نے شہباز شریف کو واضح کر دیا ہے کہ یہ صورتحال رہی تو آگے چلنا مشکل ہو گا۔ نہ ہی بیرون ممالک ہم پر اعتماد کرکے بیل آؤٹ پیکیج دیں گے نہ ہی معاشی حالات بہتر ہوسکیں گے۔ شنید ہے کہ چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ٓائندہ اعلیٰ سطحی تقرر وتبادلے نہ صرف ملکی مفاد میں ہوں گے بلکہ سیاسی حکومت بھی سازشوں سے بالاتر نظر آئے گی۔ ملاقات میں یہ بھی طے ہوا ہے کہ قائمقام گورنر کا عہدہ پرویز الٰہی اس لیے قبول نہیں کر رہے کہ ڈپٹی سپیکر قائمقام سپیکر بن کر پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرواکر منظور نہ کر وادے۔ اس کا قانونی حل یہ نکالا گیا ہے کہ محکمہ قانون پنجاب ڈپٹی سپیکر کے قائمقام سپیکر کا نوٹیفیکیشن جاری کرے اور وہ اجلاس بلا کر سپیکر پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کروادیں۔