
وقت کی گریز پائی دیکھئے، پندرہ برس چند دنوں میں بیت گئے اور آج ڈیڑھ عشرے کے بعد نوائے وقت سے دوبارہ وابستگی کا لمحہ کیسا پر کیف ہے، یہ تو بس مجھی سے پوچھئے۔ طویل عرصہ نوائے وقت میں ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد محترم عباس اطہر مرحوم کے ہمراہ اس موقر ادارے کو چھوڑ دیا تھا۔ زندگی مہم جوئیوں سے عبارت ہے، آدمی کبھی خود آمادہ مہم ہوتا ہے کبھی مہم اسے گھسیٹ کر لے جاتی ہے۔ نوائے وقت چھوڑنے کا قلق بہرحال اس سارے عرصے میں رہا۔ عباس اطہر مرحوم ہوگئے، زندگی بدل گئی اور حالات کی شکل ہی کچھ اور ہوگئی۔
لیکن جو طویل دس بارہ سال نوائے وقت کے عملہ ادارت میں گزارے، میرا نوائے وقت کا تعلق اس سے بھی بہت پہلے کا ہے اور اس وقت سے ہے جب میں ٹھیک سے اخبار پڑھ بھی نہیں سکتا تھا۔ جی، یہ میرے پرائمری سکول کے زمانے کی بات ہے۔ لگ بھگ اس کے وسط کی جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے وقت کے آمر ایوب خان کا صدارتی الیکشن میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ خبر ہم بچوں تک یوں پہنچی کہ ’’ایوب بادشاہ‘‘ کے خلاف مادر ملت میدان میں نکل آئی ہیں۔ ہم سکول کے مختصر احاطے میں بھی کبھی کبھار مل کر ایوب کے خلاف نعرے بازی کرلیا کرتے تھے اور پھر ایک دوسرے کو خبر دار بھی کر دیتے تھے کہ دیکھو، باہر یہ نعرے نہیں لگانے، پولیس پکڑ لے گی۔
متحدہ حزب اختلاف کی مقامی شاخ کے کرتا دھرتا میرے ماموں اور والد مرحوم تھے۔ ایک دن انہیں، کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ یہ گفتگو کرتے سنا کہ ’’نوائے وقت‘‘ اب تو مگنوانا ہی پڑے گا۔ یہ نام پہلی بار سنا تھا اور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ کسی اخبار کا نام ہے۔ گھر میں کراچی کے اخبارات آتے تھے جنگ اور حریت۔ لاہور کے اخبارات اندرون سندھ میں نہیں آتے تھے۔ کچھ ہی روز بعد نوائے وقت ڈاک سے ملنا شروع ہوگیا۔ ہماری ’’بیٹھک‘‘ اپوزیشن کا دفتر تھی اور اسی کو نوائے وقت کا دارالمطالعہ بنا دیا گیا۔ لوگ دن بھر بلکہ عشاء کے وقت تک آتے رہتے اور ڈاک سے ایک دن بعد ملنے والا نوائے وقت پڑھتے رہتے۔ پتہ چلا کہ باقی سب اخبارات ایوب خان سے ڈرتے تھے۔ اکیلا نوائے وقت جو ڈرتا نہیں ہے اور مادر ملت کی خبریں ٹھیک سے چھاپ دیتا ہے۔ بیٹھک میں اپوزیشن کے ہفتہ واری پرچے چٹان اور ایشیاء نیز اپوزیشن کے پمفلٹ اور دو ورقے بھی آتے۔ کچھ ہی روز بعد اپوزیشن کا دفتر بازار کی ایک دکان میں منتقل کردیا گیا۔ دکان کو مادر ملت کے انتخابی نشان ’’لالٹینوں‘‘ اور مادر ملت کی تصاویر سے سجایا گیا تھا۔ اپوزیشن کے جلسوں کی ریکارڈنگ والے ٹیپ لائے جاتے اور لوگوں کو ٹیپ ریکارڈ پر سنوائے جاتے۔ یہ زمانہ ’’سپول‘‘ (Spool) کا تھا۔ ’’کیسٹ‘‘ ابھی نہیں آئے تھے۔ مادر ملت الیکشن ہار گئیں۔ ہمارے گھروں میں کئی دن سوگ رہا۔ کچھ دن دارالمطالعہ چلتا رہا اور پھر بند ہوگیا۔ نوائے وقت کے آنے کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔
دن گزرتے گئے یا غالباً1969ء کا سال آپہنچا۔ میرے مرحوم کزن ماہر اقبالیات پروفیسر عبدالجبار شاکر لاہور کے اوریئنٹل کالج میں پڑھتے تھے اور میں آٹھویں نویں کا طالب علم۔ ایک دن پنجاب سے آگئے اور کئی دن مہمان رہے۔ انہوں نے بتایا کہ مجید نظامی (مرحوم) نے نوائے وقت چھوڑ دیا ہے اور اب وہ اپنا اخبار نکالیں گے۔ ایک دن کسی اخبار میں اشتہار دیکھا کہ ’’ندائے ملت‘‘ نے اپنی اشاعت شروع کردی ہے۔ بلا تاخیر خط بھیج کر وی پی سے خریدار بن گیا۔ ندائے ملت ملنے لگا۔ سلسلہ چلتا رہ یہاں تک کہ 1971ء کا تباہ کن سال آگیا۔ کچھ عرصے بعد ایک دن جو اخبار آیا وہ ندائے ملت نہیں نوائے وقت تھا اور اس کی پیشانی پر جلی سطر میں لکھا تھا کہ ’’اس میں ندائے ملت بھی شامل ہے‘‘ دراصل ندائے ملت نوائے وقت میں ضم نہیں ہو رہا تھا بلکہ نوائے وقت اپنے حقیقی وارث مجید نظامی کے پاس آگیا تھا۔ اخبار جاری رہا۔1973-74 میں جنوبی پنجاب منتقل ہوگیا، وہاں لاہور کے اخبارات سٹالز پر دستیاب تھے۔اور کچھ برس بعد مستقلاً لاہور آ گیا۔ اس وقت وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ جس نوائے وقت سے اتنا پرانا‘ اتنا دلی رشتہ ہے‘ ایک دن اسی میں شعبہ نیوز کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا موقع ملیگا۔ یہ موقع ملا اور مجید نظامی مرحوم کی قیادت میں جمہوریت کیلئے کئی معرکہ آرائیوں میں حصہ لیا۔
سانحہ پھر یہ ہوا کہ مجید نظامی اسلام اور نظریہ پاکستان کی طویل جنگ لڑنے کے بعد یہ دنیائے فانی چھوڑ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ ان کے بعد محترمہ رمیزہ نظامی صاحبہ نے اخبار کو سنبھالا اور آج نوائے وقت کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں ہے کہ مجید نظامی نہیں رہے۔ ایک بڑا صحافی اور مدیر جب دنیا چھوڑ دیتا ہے تو اس کے چلائے ہوئے اخبار یا رسالے کی شکل تو شاید وہی رہتی ہے لیکن اس کی روح باقی نہیں رہتی۔ صاف لگتا ہے کہ یہ وہ جریدہ نہیں ہے‘ شکل بھلے ہی اس جیسی ہے۔ نوائے وقت میں یہ ماجرا نہیں ہوا۔ اس کے ہر صفحے پر مجید نظامی نظر آتے ہیں‘ اس کی رگوں میں خون بن کر وہی دوڑ رہے ہیں۔
طویل 72 برسوں بعد پاکستان کے سیاسی کلچر میں ایک معنوی اور جوہری تبدیلی واقع ہوئی ہے جو ملک کو درپیش نہایت کٹھن حالات کے باوجود آنے والے دور کا اچھا شگون اور نیک اشارہ ہے۔ عساکر پاکستان نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ غیر سیاسی ہیں‘ سیاست کے امور میں وہ کوئی دخل اندازی کر رہے ہیں نہ کریں گے۔ گویا طالع آزمائی کے باب ماضی کے اندھیروں میں ہمیشہ کیلئے دفن ہوئے۔ یہ حیرت ہے کہ بعض لوگوں کو یہ اچھا شگون بد شگونی لگ رہا ہے۔ نوائے وقت نے 1947ء سے پہلے آزادی کے تحفظ کی‘ آئین اور جمہوریت کی بالادستی کی جنگ لڑی۔ چنانچہ یہ اعلان جہاں عوام پاکستان اور عساکر پاکستان کی فتح ہے‘ وہیں پاکستان کی بھی فتح ہے۔
آنے والا دور جاں گسل جدوجہد کا ہے۔ پاکستان کو 1971ء کے بعد کا سنگین ترین چیلنج درپیش ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں اور دونوں سرحدوں پر خطرات مورچہ بند ہیں۔ ایسے میں نوائے وقت کا کردار بہت اہم ہونے والا ہے۔ میرے لئے یہ سعادت کی بات ہے کہ اس مرحلے میں کاروان نوائے وقت کا ایک ہمسفر ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ آج کا کالم واپسی کے ذکر اور وابستگی کی پرانی کہانی یعنی حالات ماضیہ کی نذر ہوا‘ حالات حاضرہ پر باقاعدہ کالم انشاء اللہ کل سے …!
٭…٭…٭