وزیراعظم کا بھارت سے کوئی بات نہ کرنے کا دوٹوک اعلان
بھارت کے زیرتسلط کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی تک
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں‘ بھارت سے کشمیر پر کوئی بات چیت نہیں ہورہی۔ گزشتہ روز عوام کی ٹیلی فون کالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین کی اقتصادی ترقی سے خوفزدہ ممالک بھارت کی حمایت کرتے ہیں۔ جب تک بھارت غیرقانونی قبضے والے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتا تب تک اس سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ ہم نے کشمیر کا مسئلہ دنیا بھر میں اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر ستائیسویں رمضان کی شب حملہ کیا جو قابل مذمت ہے۔ انکے بقول طاقتور کو قانون کے نیچے لانے تک فلاحی ریاست قائم نہیں ہو سکتی۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں شروع دن سے ہی قومی پالسی سے ہم آہنگ ٹھوس اور جاندار موقف اختیار کیا ہے اور پاکستان کا یہی اصولی موقف ہے کہ بھارت جب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں دیتا اور مسئلہ کشمیر حل نہیں کرتا‘ اس وقت تک اسکے ساتھ دوستانہ اور تجارتی تعلقات استوار نہیں ہوسکتے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی اسی تناظر میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ منسلک کیا اور اسے باور کرایا کہ پاکستان کی امن کی خواہش اپنی جگہ‘ مگر بھارت جب تک کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم نہیں کرتا اسکے ساتھ کسی قسم کا سلسلۂ جنبانی شروع نہیں ہو سکتا۔ اسکے برعکس بھارت کی توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی مودی سرکار نے دو سال قبل پانچ اگست 2019ء کو مقبوضہ وادی پر شب خون مارتے ہوئے بھارتی آئین کی دفعات 370‘ اور 35اے کے تحت اپنے زیرتسلط کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت یکسر ختم کردی جس کیلئے اس نے بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں آئینی ترامیم کے مسودے پیش کرکے اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت منظور کرائے تو اس پر سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے ہی اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا اور لائن آف کنٹرول کی جانب جانیوالے کشمیریوں کے احتجاجی مظاہرے کی خود قیادت کی جبکہ حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی کی آئینی پوزیشن کی بحالی تک بھارت کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات منقطع رکھنے کا دوٹوک اعلان کیا گیا۔ بھارت نے اسکے برعکس مقبوضہ وادی کو جموں اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں الگ الگ طریقے سے بھارت میں ضم کردیا اور اس کیخلاف کشمیریوں کے ممکنہ احتجاج کو روکنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی کو بھارتی فوج کے محاصرے میں دے دیا۔ اس فوجی محاصرے کو آج 646 روز ہوگئے ہیں اور کشمیری عوام کا باہر کی دنیا سے رابطہ مکمل منقطع ہے جبکہ مودی سرکار نے اپنے اس جابرانہ یکطرفہ اقدام کیخلاف دنیا بھر میں ہونیوالے احتجاج‘ برطانیہ‘ یورپی یونین اور سلامتی کونسل کی قراردادوں اور امریکہ‘ چین‘ برطانیہ اور یورپی یونین کی قیادتوں کی جانب سے کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکشوں کو یکسر مسترد کر دیا اور مقبوضہ وادی میں اپنے ظلم و جبر کے ذریعہ کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کے ساتھ ساتھ کنٹرول لائن پر پاکستان کیخلاف بھی اپنے جارحانہ عزائم بڑھا دیئے جن کی بنیاد پر کنٹرول لائن سے ملحقہ شہری آبادیوں کو بھی یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا نشانہ بنایا جانے لگا جس کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے اپنے سفارتی ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے اقوام عالم کو بھارت کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا اور خود وزیراعظم عمران خان نے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور اسکے جاری مظالم سے عالمی قیادتوں کو آگاہ اور بھارت کے جنونی ہاتھ روکنے کا تقاضا کیا جبکہ بھارت نے کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کے دوران بھی مقبوضہ وادی میں اپنے مظالم کا سلسلہ برقرار رکھا اور پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی البتہ پاکستان کی سفارتی کوششوں کے نتیجہ میں مودی سرکار وقتی طور پر عالمی دبائو میں آئی اور بالخصوص پاکستان کے عرب دوستوں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی کوششوں سے بھارت پاکستان کے ساتھ سازگار فضا قائم کرنے پر آمادہ نظر آیا چنانچہ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کے مابین باضابطہ میٹنگ میں کسی قسم کی اشعال انگیز کارروائی نہ کرنے اور جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کرنے پر اتفاق ہوگیا۔
افہام و تفہیم کی یہ فضا کچھ ہی عرصہ تک برقرار رہ پائی اور مودی سرکار کا جنگی جنون پھر غالب آگیا جس کے نتیجہ میں دو ہفتے قبل بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر پاکستان کی چیک پوسٹوں کی جانب پھر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیا جس پر پاک فوج نے دوٹوک جوابی کارروائی کی تو بھارتی گنیں خاموش ہو گئیں۔ اس بھارتی ذہنیت کے باوجود جب کرونا وائرس کی بھارت پر یلغار ہوئی اور آکسیجن کم ہونے کے باعث بھارتی باشندوں کی دھڑا دھڑ اموات ہونے لگیں تو پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت بھارت کو آکسیجن فراہم کرنے کی پیشکش کی مگر مودی سرکار نے پاکستان کی جانب سے انسانی ہمدردی کے اس جذبے کو بھی ٹھکرا دیا اور بھارتی پنجاب کو پاکستان سے آکسیجن درآمد کرنے سے روک دیا جس سے پاکستان کے بارے میں بھارتی خبث باطن کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں بھارت ہماری جانب سے کسی رعایت‘ ہمدردی یا خیرسگالی کے کسی جذبے کا قطعاً مستحق نہیں اور وزیراعظم عمران خان نے اسی حوالے سے گزشتہ روز واضح اعلان کیا ہے کہ بھارت کے زیرتسلط کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی بحالی تک بھارت سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ یہ امر واقع ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اس لئے بھارت جس سلوک کا مستحق ہے اسکے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے۔ کشمیر کاز درحقیقت ہمارا اپنا کاز ہے اور کشمیریوں کے دل ہمارے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اس لئے ہم اپنے کسی اقدام سے کشمیریوں کا آزادی کا سفر کھوٹا کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ عالمی قیادتوں کو بہرصورت علاقائی اور عالمی امن کی خاطر بھارت کے ہاتھ روکنے کیلئے اپنا عملی کردار ادا کرنا ہے۔