جمعرات‘ 1442ھ‘ 13؍مئی 2021ء
کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں میں 29 فیصد اضافہ ہوا: وزیر اعظم
ہمیں دنیا سے کیا لینا دینا۔ دنیا کو ہماری کون سی فکر ہے جو ہم دنیا کی کریں۔ دنیا میں مہنگائی کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہم سے ہزاروں گنا زیادہ بہتر ہے۔ کیا کبھی کسی نے اس کی مثال دی ہے۔ اگر نہیں تو پھر ہمیں مہنگائی پر صبر کرنے کے لیے کیوں کہا جا رہا ہے کہ کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کرونا کی وجہ سے ہر ملک نے اپنے عوام کو بے شمار سہولتیں فراہم کی ہیں انہیں رعایتیں دیں۔ ہمیں کیا ملا۔ ہر چیز کے دام اوپر سے اوپر ہونے سے مہنگائی کا بھوت پورے ملک میں اُدھم مچا رہا ہے۔ ویسے سچ کہیں تو یہ کرونا بھی بس اک بہانہ ہی ہے۔ جب یہ نہ تھا تو تب ہمارے ہاں کونسی دودھ و شہد کی نہریں بہتی تھیں۔ اس وقت بھی یوٹیلٹی بلز اور اشیاء صرف کی قیمتیں بے لگام ہو کر عوام کی پہنچ سے دور ہو رہی تھیں۔ آٹا ، چینی ، گھی ، چاول سبزیاں اور دالیں کب سے عوام کو خون کے آنسو رلا رہی ہیں۔ رہی سہی کسر پٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور گیس کے بل پوری کر رہے ہیں۔ ’’نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز‘‘ والی حالت کئی برسوں سے آسیب کی طرح ہم سے چمٹی ہوئی ہے۔ اب وزیر اعظم کو کون جا کر بتائے کہ جناب دنیا میں اگر قیمتیں 29 فیصد بڑھیں ہیں تو ہمارے ملک میں 290 فیصد بڑھی۔ یہ سچ وزیر اعظم کے علم میں نہیں ہے یا اردگرد بیٹھے مشیر اور وزیر یہ سچ وزیر اعظم کے سامنے لانا نہیں چاہتے۔ جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو چاروں طرف سب سستا نظر آتا ہے۔
٭٭٭٭٭
کم عمر پاکستانی نوجوان نے مائونٹ ایورسٹ پر پرچم لہرا دیا
19 سالہ شہروز کاشف کو یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دینے پر پوری قوم مبارکباد پیش کرتی ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی انہیں فوری طورپر نوجوانوں کا خیرسگالی کا سفیر مقرر کر دیا ہے تاکہ وہ دنیا کو پاکستان کا روشن چہرہ دکھا سکیں۔ یہ باہمت نوجوان اس سے قبل 17 سال کی عمر میں چوتھی بلند ترین براڈ پیک جیسی خطرناک چوٹی بھی سر کرنے کا اعزاز اپنے نام کر چکا ہے۔ ماونٹ ایورسٹ دنیا کی سب سے بلند پہاڑی چوٹی ہے جسے سر کرنا ہر کوہ پیما کی خواہش ہوتی ہے مگر کوئی کوئی اسے اپنے قدموں میں لاتا ہے۔ شہروزکاشف جیسے نوجوانوں کی تربیت اور انہیں ہرممکن رہنمائی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ وہ پاکستانی نوجوانوں کو کوہ پیمائی کی طرف راغب کر سکیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کر سکیں۔ کوہ پیمائی ایک کٹھن کام ہے۔ ہمارے نوجوان اس کی طرف رغبت بھی رکھتے ہیں مگر وسائل کی کمی اور تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس میدان میں آگے نہیں بڑھ پاتے۔ جہاں جہاں قسمت یاوری کرتی ہے وہاں یہ نوجوان اپنی کاوشوں کی بدولت محنت اور ہمت کی بے مثال داستانیں مرتب کرتے ہیں۔ محمد علی سدپارہ مرحوم جیسے کوہ پیما کے بعد اب شہروز کاشف جیسے بلند ہمت نوجوان ہماری نئی نسل کیلئے مشعل راہ ہیں۔ اب حکومت اور محکمہ کھیل کا بھی فرض ہے کہ وہ اس میدان میں نوجوانوں کی تربیت کا ذمہ لے۔ انہیں ہرممکن مراعاتیں اور سہولتیں فراہم کرے تاکہ وہ آگے بڑھ کر کوہ پیمائی کے میدان میں بھی اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں۔
٭٭٭٭٭
مودی نے بھارتی پنجاب کو پاکستان سے آکسیجن لینے سے روک دیا
اسے ہم ہٹ دھرمی کہہ لیں، انا کہہ لیں یا ضد، ان سب کے پیچھے پاکستان سے نفرت کا منفی جذبہ چھپا ہوا ہے۔ ساری زندگی چائے کے سٹال سے لیکر وزیراعظم بننے تک نریندر مودی ظالم جنونی انتہاپسند آر ایس ایس کا غنڈہ بنا رہا۔ کبھی گجرات کا قصاب کہلایا اور کبھی دہلی کا قاتل۔ اس کی ذہنی قابلیت صرف اور صرف یہ ہے کہ یہ جنونی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ آر ایس ایس کا غنڈہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود نہ تو بھارت سے مسلمانوں کو ختم کر سکا نہ ہی پاکستان کا کچھ بگاڑ سکا۔ الٹا اس کی نحوست کی وجہ سے پورا بھارت کرونا کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ لوگ دھڑادھڑ مر رہے ہیں مگر یہ ظالم شخص چتائوں سے اٹھنے والے شعلوں کے درمیان بھی بیٹھا مسکرا رہا ہے۔ اسے کسی بھارتی پر ترس نہیں آرہا۔ اس کی سفاک آنکھوں سے اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت پر بھی آنسو کا ایک قطرہ تک نہیں ٹپکا۔ بھارتی یعنی مشرقی پنجاب کی سرحد پاکستانی پنجاب سے جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان نے جذبہ خیرسگالی کے طورپر بھارت میں آکسیجن کی کمی دور کرنے کیلئے آکسیجن فراہم کرنے کی پیشکش کی تو اس پر مودی نے چپ سادھ لی۔ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے مودی سرکار سے آکسیجن پاکستان سے امپورٹ کرنے کی اجازت مانگی تو مودی نے نہایت رعونت سے یہ درخواست رد کرکے اپنے خبث باطن کا ثبوت دیا ہے۔ شاید اسے ڈر ہے کہ اگر ایسا ہوا تو بھارتی پنجاب کے سکھوں کے دلوں میں پاکستان سے محبت اور بڑھ جائے گی۔ جو پہلے ہی پاکستان کی محبت کے اسیر ہیں اور بھارت کے چنگل سے نجات چاہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ڈسکہ میں 65 سالہ بزرگ کے جنازے پر نوٹ نچھاور کرنے کی ویڈیو
اب معلوم نہیں یہ بابا جی کی وصیت تھی یا ان کے لواحقین کو ان کے رخصت ہونے کی خوشی۔ جنازہ اٹھتا ہے تو لواحقین روتے دھوتے نظر آتے ہیں مگر یہ معاملہ کچھ اور ہی لگتا ہے۔ نوٹ نچھاور کرنا خوشی کی علامت ہے جبھی تو بارات پر نوٹ لٹائے جاتے ہیں۔ لوٹنے والے غور سے دیکھیں نوٹ جعلی تو نہیں تھے۔ اب یہ 65 سالہ بابا کوئی اتنی عمر کا بھی نہیں تھا کہ اس کے رخصت ہونے پر یہ اہتمام کیا جاتا۔ عمر 90 یا 95 برس ہوتی تو کہا جاسکتا ہے۔ ان کی خدمت کرتے کرتے تھکنے والے اب خوشیاں منا رہے ہیں۔ خیر یہ جنازے کے سرہانے قوال نے آکر طبلہ اور ہارمونیم کے ساتھ قوالی شروع کردی یہ کس جنازے پر ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ بتا رہا ہے کہ مرنے والے کے لواحقین کے ارادے کچھ اور ہیں اب وہ بابے کو ’’بابا‘‘ بنانے کے چکروں میں ہیں چند دن بعد اس قوال کو لے کر قبر پر چادریں ڈالی کر قوال کی تال پر یہی لوگ دھمالیں ڈالتے نظر آئیں گے اور پھر یہ بابا کی قبر کومزار بنا کر مال کمانے کا ذریعہ بنا دیا جائے گا۔ کہتے ہیں پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے۔ اس فلسفے کی رو سے گھر والے جنازہ پر چند ہزار لگا کر بعد میں قبر پر چڑھنے والے منافع کی شکل میں کئی گنا زیادہ رقم حاصل کریں گے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں۔ خدا ہمارے جاہلوں پر رحم فرمائے جو اس قسم کی حرکات کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے…