وزیر اعظم کا دورہ سعودی عرب
سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس اس دورے کے بارے میں مصدقہ معلومات نہیں۔اس لیے مجھے اپنے تجزیے کے لیے سنی سنائی باتوں پر انحصار کرنا پڑے گا ،۔ہر دورے کی طرح یہ دورہ بھی کامیاب رہا ہے ۔کیونکہ خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی دورہ ناکام نہیں ہوتا ،کیونکہ دورے کا ہوجانا ہی اس کی اصل کامیابی سمجھی جاتی ہے۔حالیہ دورہ تو اس لحاظ سے بہت کامیاب سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے دونوں ملکوں میں برف پگھلنے کے آثارہویدا ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم کا دورہ شروع ہونے سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ چار روز تک سعودی حکومت سے مذاکرات میں مصروف رہے ۔باور کیاجاتا ہے کہ ان مذاکرات میں دونوں ممالک کے دفاعی امور ،معاشی تعلقات اور خارجہ امور زیر بحث آئے ہوں گے۔آرمی چیف نے سعودی حکومت کے ساتھ ہر سطح پر مذاکرات کیے ،لگتا یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے سعودی عرب سے کسی نہ کسی سطح پر خصوصی روابط موجود ہیں اور وہ ان کی وجہ سے پاکستان کے لیے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ماضی میں بھی جنرل باجوہ نے وزیر اعظم کے لیے سعودی عرب میں فضا ہموار کی اور اب بھی انہوں نے ویسا ہی کردار ادا کیا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کا دورہ سعودی عرب تین دن کا تھا ۔جنرل قمر باجوہ بھی اسی وفد کا حصہ بن گئے اور انہوں نے وہاں کل چھ روز گزارے۔ظاہری طور پر دورے کی کامیابی کی جو علامات نظر آتی ہیں ان میں نمایاں ترین بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے وزیر اعظم کا گرم جوشی سے استقبال کیا ہے ۔سعودی عرب کے طاقت ور ترین شخص اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے وزیر اعظم کے طیارے میں جا کر ان کا استقبال کیا ،بعد ازاں شاہی محل میں انہوںنے ذاتی طور پر دوبارہ خوش آمدید کہا ۔مدینہ منورہ میں وزیر اعظم اور ان کے وفد کے ارکان کے ساتھ خصوصی برتائو کیا گیا اور انہیں روزہ رسول ﷺ کے اندر لے جا کر زیارت اور سلام کا موقع فراہم کیا گیا ،اسی طرح مکہ مکرمہ میں عمرے کے دوران وزیر اعظم کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا اور وزیر اعظم نے خصوصی طور پر خانہ کعبہ کے اندر نوافل ادا کیے اور دعا کی ۔واضح رہے کہ اس سے پہلے جنرل مشرف کو خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھنے کا شرف بھی ملا تھا ۔سعودی عرب میں یہ سلوک انتہائی خصوصی مہمانوں کے ساتھ روا کھا جاتا ہے ۔
سنی سنائی باتوں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان وزرا کی سطح پر ،وفودکی سطح پر اور ون ٹو ون مذاکرات ہوئے اور ملاقاتیں جاری رہیں۔ چونکہ اس دورے کا کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا اس لیے جب تک پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نہیں بتاتے تب تک یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ پاکستان نے اس دورے سے کیا حاصل کیا ویسے کہا جارہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان درجنوں ایم اوایوز پر دستخط کیے گئے ہیں۔یہ ایم او ایوز عوام کے سامنے لائے جائیں تو دورے کے نتائج کا حتمی تجزیہ آسانی کے ساتھ کیا جا سکے گا ۔
دورے کے اختتام پر سعودی وزارت خارجہ اور پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمانوںنے الگ الگ بریفنگ دی ۔سعودی بریفنگ کے مطابق پاکستان کو پیش کش کی گئی ہے کہ چونکہ سعودی عرب کے بھارت کے ساتھ بڑے اچھے مراسم قائم ہیں اس لئے خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے سعودی عرب اپنا کردار ادا کرنے کوتیار ہے ۔پاکستانی بریفنگ میں بتایا گیا کہ ہم نے تنازعہ کشمیر کے حل پر زور دیا ہے اور دونوں ملکوں نے فلسطین میں اسرائیل کی وحشیانہ شیلنگ کی مذمت کی ہے اور اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ وہ یو این او کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین حل کرے ۔اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے کی میڈیا سیکشن کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب نے ذکوۃ اور فطرانے کی مد میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے نو اضلاع کے لیے انیس ہزار چاولوں کے تھیلے مستحقین میں تقسیم کے لیے دیے ہیں چاولوں کا وزن چار سو ٹن بتایا گیا ہے۔مستحقین کا چنائو مقامی حکومتوں کی مدد سے کیا جائے گا،پریس ریلیز کے مطابق زکواۃ کی اس مد سے دنیا کے مزید انسٹھ ممالک بھی مستفید ہوئے ہیں۔یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ پاکستان کے ساتھ کوئی خصوصی سلوک روا نہیں رکھا گیا وہ انسٹھ ممالک کی فہرست میں شامل ایک ملک ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کے دو صوبوں کو نظر انداز کیوں کیا گیا ہے ۔پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اس امداد سے باہر رکھا گیا ہے ۔
سعودی عرب نے جہاں بھارت کے ساتھ پاکستان کے تنازعات کو حل کرنے کی پیش کش کی ہے وہاں جواب آں غزل کے طور پر پاکستان نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اپنی خدمات پیش کردی ہیں ۔اور ممکنہ طور پر سعودی عرب نے یہ پیش کش قبول کرلی ہے کیونکہ امریکہ میں بائیڈن حکومت آنے کے بعد سعودی عرب دبائو کا شکار ہے اور وہ اس امر پر مجبور ہوگیا ہے کہ اپنے ہمسایوں سے اچھے تعلقات استوار کرے ۔
میں ایک بار پھر اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتا ہوں کہ جب سعودی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پاکستان کو بھارت کے ساتھ کشمیر کے تنازعے کے حل کی پیش کش کی تو کیا وہاں میڈیا کا کوئی ایسا نمائندہ موجود تھا جو سعودی ترجمان پرواضح کرتا کہ جناب عالی! پاکستان کا بھارت کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں ہے بلکہ اصل میں بھارت کا کشمیریوں کے ساتھ تنازعہ چل رہا ہے۔بھارت نے نو لاکھ فوج کی مدد سے کشمیر کو جبری طور پر اپنی کالونی بنا رکھا ہے ۔کشمیر کے نوے لاکھ مسلمان بھارت کے اس قبضے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔اس تناظر میں اگر سعودی عرب کوئی مدد کرسکتا ہے تو اس کا فرض یہ ہے کہ وہ بھارت پر اس امر کے لیے دبائو بڑھائے کہ کشمیر کامسئلہ کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونے دے۔سعودی عرب کی ایک سردردی یمن کی وجہ سے ہے جہاں سے حوثی باغی سعودی عرب پر راکٹ اور میزائل پھینکتے رہتے ہیں ۔اس ضمن میں میرا دل کہتا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف اور وزیر اعظم کی طرف سے سعودی عرب کو مکمل یقین دہانی کرائی گئی ہوگی کہ پاکستان اپنے برادر اسلامی ملک کے دفاع کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گا اور خاص طور پر حرمین شریفین کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیا جائے گا ۔
اچھی خبر یہ ہے کہ دورے میںان ہزاروںپاکستانیوں کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا ہے جو سعودی عرب کی جیلوں میں لاوارث پڑے ہیں۔ ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے اندر چند برسوں میں ایک کروڑ نوکریوں کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر نوکریاں پاکستانی ہنر مندوںکیلئے ہیں۔پاکستان کو یہ دورہ کتنے میں پڑا۔کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے تین ارب کا ادھار واپس لے لیا ہے۔میرا خیال ہے کہ یہ تین ارب ڈالر میں یہ دورہ پھر بھی سستا رہا۔ کیونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین جو سردمہر ی پیدا ہوگئی تھی۔ اس مقصد کے لئے تین ارب گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
کیا ہی بہتر ہو کہ وزیر اعظم کا کوئی ترجمان یا وزیر اطلاعات یا سیکرٹری اطلاعا ت یا حکومت پاکستان کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر میرے جیسے دور بیٹھے ہوئے میڈیا پرسنز کی راہنمائی کے لیے اپنے فون کھلے رکھیں ،رابطے کے اس فقدان کی وجہ سے حکومت کے کئی اہم اقدامات عوام تک نہیں پہنچائے جا سکے۔ میڈیا کو بر وقت معلومات چاہئیں ، معلومات تک رسائی کا حق میڈیا کو آئینی طور پر حاصل ہے مگر عملی طور پر نشتہ !