عیدالفطر! یا رب دل مسلم کو کچھ ایسی تمنا دے
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے آخری ایام تھے۔ اللہ کا ہر نام لیوا، اسکی بڑائی میں سرنگوں قیام الیل کی ساعتوں میں گم اللہ رب العزت کی عنایتوں کا متلاشی تھا۔ اسی اللہ کو راضی کرکے اپنی بگڑی سنوارنے کا خواہش مند تھا۔بچوں کی خوشی دیدنی تھی، عید کیلئے نئے ملبوسات کی تیاریاں بھی عروج پر تھیں۔ان مبارک ایام میں جب ہر کوئی اللہ کے آگے سربسجود تھا، شیطانی اتحاد ثلاثہ نے اپنی طاغوتی طاقتوں کے زعم میں بربریت کی مثال قائم کر دی۔ قبلہ اول کے اطراف میں بنی مسلمان بستیوں پر ناجائز صیہونی قبضہ کیلئے اپنی عسکری قوت کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ بچوں بوڑھوں نوجوانوں کو گھسیٹ کر مساجد سے باہر پھینک دیا گیا۔ انہیں بری طرح تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہر طرح کی زک پہنچائی گئی۔ ان کی بستیوں میں دہشت پھیلانے کیلئے شدت سے ہوائی حملے بھی کئے گئے۔ کئی مکانات تباہ ہوئے۔ عورتوں بچوں سمیت کئی معصوم جانوں کی بلی چڑھائی گئی۔ یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے محض ڈھیلی ڈھالی اپیل دہرائی گئی کہ اسرائیل اپنے مشن کو موخر کر دے۔ فرانس نے بڑی ڈھٹائی سے اسرائیل کو مزید حملے تیزی سے کرنے کا اظہار کرتے ہوئے اپنی خصلت کا ایک بار پھر اعادہ کیا۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ! قومِ مسلم کا دل تڑپ رہا ہے لیکن ان پر مسلط حکمران امن کا راگ الاپ رہے ہیں۔ ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم جنھوں نے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم کر رکھا ہے، نے بڑے دکھ کے ساتھ فرمایا کہ اکیلا ملک کچھ نہیں کر سکتا۔ یاد کریں تاریخ کے وہ صفحات جب گیارہویں صدی عیسوی میں خلافت عباسیہ کے دور حکومت میں ملت اسلامیہ درجنوں ریاستوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ خلیفہ وقت کے پاس ان ریاستوں کے حاکموں کو حاکمیت کی سند دینے کی اتھارٹی تھی، صلیبی قوتوں نے قبلہ اول پر قبضہ کر لیا۔ جس کیخلاف صرف مصر کے ایک حکمران نورالدین زنگی نے بیڑہ اٹھایا۔ انکی زندگی نے وفا نہ کی تو ان کے مشن کو ان کے جانشین "صلاح الدین ایوبی" نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔پندرھویں صدی کے وسط میں عظیم ترک سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرکے تاریخ مسلم میں فاتح کا خطاب حاصل کیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کا جانشین 1481 میں تخت نشیں ہوا اور طاؤس رباب کی محفلیں سج گئیں۔ تاریخ اسلامیہ کے چہرے پر ایک اور کالک ملی جا رہی تھی اور سلطان طاقت کے نشے میںچور سرمستی کی محفلوں میں گم تھا۔ 1492 میں سقوط ہسپانیہ کا زخم اس کے دور میں لگا جو آج تک دل مسلم پر کچوکے لگا رہا ہے۔ تاریخ کے ان خونی لمحات کی شاعر مشرق نے جو تصویر کھنچی ہے اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر امم کیا ہے
شمشیر سناں اول، طاؤس ورباب آخر
آج بھی مسلم امہ کی تقدیروں پر فائز حکمران طاؤس و رباب کی انہی محفلوں میں گم جام نو کے مزے لوٹ رہے ہیں۔کشمیر جسے قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، پونے دو سال سے وہاں کے 80 لاکھ مسلمانوں پر دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اپنے ہی گھروں میں قیدی بنا لیا گیا ہے۔ نوجوانوں بچوں بوڑھوں کو تشدد سے مارا جا رہا ہے، پیلٹ گنوں سے اندھا کیا جا رہا ہے۔ لڑکیوں بچیوں کی اجتماعی آبرروریزی کی جا رہی ہے اور ہمارے حکمران، ہم امن چاہتے ہیں کی گردان لگا رہے ہیں۔ ہم بھارت سے کوئی بات نہ کرینگے جب تک وہ کشمیر کو 5 اگست 2019 کی پوزیشن پر نہ لا کر آئین ہند کی دفعہ 370 کو لاگو نہ کرینگے، ہم بھارت سے کوئی ڈائیلاگ نہیں کرینگے۔ مسلسل راگ الاپا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی کشمیر کی قرارداد سے ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
میں پوچھنا چاہوں گا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کو 72 برس گزر گئے لیکن سولائزڈ کہلانے والی اقوام عالم بھارت کی ہمنواء بنی ہوئی ہیں بلکہ پاکستان پر FATF کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ بھارتی راء ایجنٹ کلبھوشن کا کردار کسی سے چھپا نہیں، کس طرح اس نے بھارتی حکومت کی ایماء پر پاکستان دشمنوںپر ڈالروں کی برسات کی اور پورے ملک میں دہشت کی فضا پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی ہر ممکن سرپرستی کرتے ہوئے گویاہر بلوچ کو پاکستان مخالف بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کیا یہ تمام واقعات بھارت کی منی لانڈرنگ کا بین ثبوت نہ ہیں لیکن یہی بھارت FATF کی ناک کا بال بنا ہوا ہے اور اس کا اہم رکن بھی ہے۔ یقینا کوئی بھی مسلمان امن کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ دین اسلام کی بنیاد ہی سلامتی پر ہے لیکن کیا اپنے پر زیادتی کرنے والوں، اپنے بچوں بوڑھوں کو قتل کرنے والوں، اپنی بہو بیٹیوں کی عزتیں لوٹنے والوں سے نبٹنے کیلئے بھی امن کے پیام کی گردان لگاتے رہو گے۔ پھر سن لو! رب جلیل کے ارشادات!
تم فرماؤ تمہیں کون روزی دیتا ہے، آسمان اور زمین سے یا کون مالک ہے کان اور آنکھوں کا اور کون نکالتا ہے زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے اور کون تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے تو کہیں گے کہ اللہ۔ تو تم فرماؤ تو کیوں نہیں ڈرتے اللہ سے۔ تو یہ اللہ ہے تمہارا سچا رب پھر حق کے بعد کیا ہے مگر گمراہی پھر کہاں پھرے جاتے ہو۔ (سورۃ یونس آیت 31-32)سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔ (سورۃ یونس 62) اور موسی ؑ نے کہا اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے تو اسی پر بھروسہ کرو اگر اسلام رکھتے ہو۔ (سورۃ یونس 84) ۔اور اللہ کے سوا اس کی بندگی نہ کر جو نہ تیرا بھلا کر سکے نہ بُرا پھر اگر ایسا کرے تو اس وقت تو ظالموں سے ہوگا۔ (سورۃ یونس 106)اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو(سورۃ ہود آیت6 )
اللہ کے ان ارشادات سے واضح ہے کہ وہی ہے جو سب کچھ ہے۔ اسکی راہ پر چلنے والوں کو کسی غم کسی خوف کی ضرورت نہیں اور اس کا رزق تو اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ یہ ہم سب کیلئے اور بالخصوص ہمارے حکمرانوں کیلئے سبق ہی نہیں جدوجہد کا لائحہ عمل بھی ہے۔ اللہ نے انہیں قوم کی راہنمائی کا تاج پہنایا ہے۔ اللہ کے احکامات پر عمل کرکے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامرانی حاصل کر سکتے ہیں۔