کورونا کے حوالے سے مسلسل بُری خبروں کے ہجوم میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت نے پیٹرولیم کی قیمتوں میں ایک بار پھر کچھ کمی کردی ہے۔گو عالمی منڈی میں اس وقت پیٹرول کی جو درگت بن رہی ہے اس کے تناظر میں اسے خاطر خواہ کمی تو قرار نہیں دیا جاسکتا مگر مہنگائی کم کرنے کے حوالے سے حکومت کے سابق ریکارڈ تو دیکھیں تو پیٹرولیم مصنوعات میںاس حالیہ کمی کو بڑی حد تک ’’اچھا خاصا ریلیف‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔یقینا مہنگائی کے مارے عوام کے لئے یہ ایک خوش آئند خبر ہے اگر اسکے اثرات ملک میں مجموعی مہنگائی کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوںجس کے امکانات کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔اس لیے کہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہم یہی دیکھتے آرہے ہیں کہ جب بھی ہمارے ہاں پیٹرول کی قیمتیں بڑھتی ہیں ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آجاتا ہے۔ہر شے مہنگی ہوجاتی ہے خواہ اُس کا پیٹرولیم مصنوعات سے دور کا بھی تعلق نہ ہو۔اور تو اور اِدھر پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کا اعلان ہوتا ہے اُدھرحجام،نانبائی،ریڑھی والا، قصائی، پلمبر، الیکٹریشن،دودھ والا فوری طور پر اپنی ریٹ لسٹ میں اضافہ کردیتے ہیں۔ایسے میںاگر کوئی اس اضافے کا جواز پوچھ بیٹھے توجواب دینے والاکسی دید لحاظ کے بغیر اس بُرے انداز میں مارکیٹ میں گردش کرتا ’’ریڈی میڈ‘‘ جواب دیتا ہے۔ ’’ جناب آپ کو نہیں پتا پیٹرول کی قیمت بڑھ گئی ہے‘‘
جسے سُن کر سوال پوچھنے والا لاجواب ہی نہیں ہوتا بلکہ اندر سے اچھا خاصا ڈر بھی جاتا ہے۔
سرِ بازار ’’بے عزتی‘‘ خراب ہونے کا ڈر نہ ہو تو بندہ ان ’’ماہرین معیشت‘‘سے پوچھے کہ وہ پھل سبزیاں اور دیگر اشیائے ضروریات جو پیٹرول کی قیمت بڑھنے سے پہلے دوکاندار کے سٹاک میں موجود ہیں اُن پر پیٹرول کی نئی قیمت کا اطلاق کیسے ہوگیا۔لیکن کیا ہے کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے پہلوان نما دوکاندار سے یہ سوال پوچھ کر کسی نے ’’گُھسن‘‘ تو نہیںکھانے ۔سو ہمارے جیسا بھلا مانس گاہک مزید کوئی دوسراخطرہ مول لئے بغیر خاموشی سے دوکاندار کو اس کامنہ مانگا ‘‘تعاون‘‘ دے کر اپنے گھر کی راہ لیتا ہے۔جہاں اسے سودا سلف کے حساب کتاب کی مد میں بیگم صاحبہ کی پیشی بھی بھگتنی ہوتی ہے۔اس کڑے آڈٹ میں اسکے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ ایک الگ دکھی داستان ہے جسے یہاں دہرانے کی اس لئے بھی ضرورت نہیں ہے کہ بیچارے شوہروں کیلئے یہ عدالت تقریباََ ہرروز گھر گھر لگتی ہے۔خیر اس سے پہلے کہ بات جگ بیتی سے آب بیتی کی طرف نکل جائے ہم دوبارہ اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔کہنا ہم نے یہ تھا کہ ہمارے ہاں جب کبھی بھی پیٹرول کی قیمت کم ہوئی ہے ۔ہم نے آج تک یہ نہیں دیکھا کہ اسکے مثبت اثرات ملک میں مہنگائی کم ہونے پر بھی مرتب ہوئے ہوں۔گویا مہنگائی ہمارے ہاںداغ کے اس مصرعے کی مانند ہے ’’حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے‘‘سوائے اسکے کہ یہ مہنگائی اوپر چلی جائے نیچے آتی ہم نے آج تک ہرگز نہیں دیکھی۔تیل کی بڑھتی قیمتوں سے ہمارے ہاں مہنگائی میں جو اضافہ ہوتا ہے وہ تو اپنی جگہ ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کے بھی ہمارے تاجر بھائی جب چاہتے ہیں چیزوں کی قیمت میں اپنی مرضی سے اضافہ کردیتے ہیں۔اس کی سب بڑی مثال ہم رحمتوں ،برکتوں اور نیکیوں کے مہینے رمضان میں دیکھتے ہیں جب منافع خور تاجران مصنوعی مہنگائی سے بیچاری عوام کواشیائے خوردو نوش سے بھی محروم کردیتے ہیں۔اس سلسلے میں یقینا حکومتیں بھی برابر کی ذمہ دار ہوتی ہیں ۔لیکن کیا ہے کہ حکومتوں کی بھی اپنی سیاسی و غیر سیاسی سو طرح کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔جن کا فائدہ اُٹھا کر غریب ،غریب سے غریب تراور امیر،امیر سے ’’امیر ترین ‘‘ہوتا جاتا ہے۔اس سارے منظر نامے کودیکھیں تو ایک بات سمجھ آتی ہے کہ دراصل من حیث القوم ہمارے اندر دوسروں کیلئے ہمدرد ی اور محبت کے احساس کی کمی ہے جسے دور کرنے کیلئے ہمارے جیسے معاشرے میں اب دعا سے زیادہ دوا کی ضرورت ہے۔دوا بھی وہ جس کی طرف وارث شاہ نے اشارہ کیا ہے ’’وارث شاہ ڈنڈا پیر اے وِگڑیاں تِگڑیاں دا‘‘
سنا ہے لاک ڈاون کے سبب امریکی تیل اب اتنا سستا ہوگیا ہے کہ کوئی اسے مفت لینے کیلئے بھی تیار نہیں۔دروغ بر گردنِ راوی ایک خبر یہ بھی ہے کہ امریکہ میں مزید تیل سٹاک کرنے کی گنجائش ختم ہونے کے باعث تیل بیچنے والے اب خریدار کو پلے سے پیسے بھی دے رہے کہ خدارا ہم سے تیل لے جاو مگر گاہک ناپید ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان میں ہوتی تو یقینا ذخیرہ اندوزوں نے اپنے گھروں کے برتنوں سے لیکر الماریوں اور پیٹیوں میں بھی مفت کا یہ پیٹرول ذخیرہ کر لینا تھااور کچھ مفت خوروں نے تو شاید اسے پینا بھی شروع کردینا تھا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024