بھارت کی نیت درست ہو تو تنازعات کے حل میں کوئی مخل نہیں ہو سکتا
کچھ طاقتیں پاکستان اور بھارت کو قریب نہیں آنے دینگی، سشما سورج کا پاکستان پر دہشتگردی کا بھی الزام
بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے ایک بار پھر پاکستان پر بھارت میں دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمسایہ ملک کی ایسی کوشش کو کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بھارتی خبررساں کے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کیخلاف پوری قوت کے ساتھ کارروائی کرنا ہو گی تاکہ پاکستان بھارت مذاکرات کے لئے ماحول فراہم ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی اور یہ کام پاکستان کو ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہو جاتے ہیں تو ایسے عناصر ملکر ان حالات کو خراب کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے صورت حال پھر خراب ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیں گی تاہم انہوں نے کہاکہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا چاہئے‘ لیکن خاموش ماحول میں امن کی باتیں ہوسکتی ہیں جبکہ تشدد کے ماحول میں امن کی بات نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں اب معمول بن گئی ہیں پہلے صرف لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ہو رہی تھی لیکن اب بین الاقوامی بارڈر پر بھی بندوقوں کے دہانے کھول دیئے ہیں۔
بھارت کے معاندانہ اور متعصبانہ رویئے کے باعث خطے کا امن تہہ و بالا ہے جس کے اثرات کسی نہ کسی طور پر عالمی امن پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ خطے میں امن کی کلید بھارت کے ہاتھ میں ہے۔ بھارت وہ بنیادی مسئلہ حل کرنے تیار نہیں جو پاکستان بھارت دشمنی کا سبب ہے۔ مسئلہ کشمیر بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث سات دہائیوں سے لاینحل چلا آ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کشمیریوں کو حق خودارادیت کے ذریعے اس مسئلہ کے حل کی تجویز دے چکی ہے۔ بھارت یہ مسئلہ خود اقوام متحدہ میں لے کر گیا، جس کے حل کی تجویز سے بھارت نے اتفاق کیا مگر شروع میں اس تجویز پر عمل سے گریز کرتا رہا پھر اس پر عمل سے انکار کر دیا اور اب مزید چار قدم آگے جاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے کے ساتھ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتانے لگا۔ دوسری طرف کشمیری کسی صورت بھارت کا تسلط قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنی آزادی کیلئے قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہے ہیں، پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت، ان کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی اور سفارتی طور پر حمایت کرتا ہے۔ بھارت کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی اور پاکستان کو ان کی جائز حمایت پر دہشت گردوں کا پشتیبان قرار دیتا ہے۔ سشما سوراج نے ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردی کو ہوا دینے کا ہوا میں تیر چلاتے ہوئے الزام لگایا ہے ساتھ ہی باور کرایا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی کرنا ہو گی۔ پاکستان بدترین دہشت گردی کا شکار رہا جس پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے مگر دہشت گردی کا جڑوں سے خاتمہ اور دہشت گردوں کے وجود سے ہنوز دھرتی پاک نہیں ہو سکی، اس دہشت گردی کے پس پشت بھارتی بدنام زمانہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے، اس کا اعتراف کلبھوشن نے بھی کیا۔ علاوہ ازیں پاکستان کے پاس اس کے ناقابل تردید ثبوت بھی ہیں جو امریکہ اور اقوام متحدہ کو پیش کئے جا چکے ہیں۔ بھارت ریاستی انتخابات کو استصواب کا متبادل قرار دیتا ہے۔ کشمیریوں نے حالیہ لوک سبھا کے انتخابات سمیت ہمیشہ ریاستی و بلدیاتی انتخابات کو اس بری طرح مسترد کیا کہ کئی پولنگ سٹیشنوں پر ایک بھی ووٹ کاسٹ نہ ہو سکا۔
بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی سے تعبیر کرتا ہے حالانکہ اس کا حق اقوام متحدہ کے چارٹر میں دیا گیا ہے اس حق کو قوت سے دبانے کیلئے نہتے کشمیریوں پر سات لاکھ سفاک فوج کو کیمیائی ہتھیاروں اور پیلٹ گنوں سمیت مہلک اسلحہ سے لیس کرنا دہشت گردی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے کے باعث ایل او سی پر بھارت کی شرانگیزی اور اشتعال انگیزی جاری رہتی ہے جس میں پاک فوج کے افسر اور اہلکار جام شہادت نوش کرتے ہیں جس کا بھارتی فورسز کو نشانہ بناتے ہوئے منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔ بھارت انسانیت کے درجے کی اس پستی تک گر جاتا ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے پار بسوں، ویگنوں اور شہری بستیوں پر حملہ کر کے خواتین اور بچوں تک کی بھی جان لے لیتا ہے۔ سول آبادی کو جنگ کے دوران بھی نشانہ بنانے کی اجازت نہیں، ایسا کرنے والوں کے خلاف عالمی قوانین کے مطابق جنگی جرائم کے تحت مقدمات بنتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں اتحادی ممالک نے جاپان اور جرمنی کے کئی جرنیلوں سمیت بڑے افسروں کو جنگی جرائم پر سزائے موت سے ہمکنار کیا تھا۔ امریکہ عالمی اصولوں پر کاربند ہوتا اور اقوام متحدہ اس کی طفیلی ہونے کا کردار ادا نہ کر رہی ہوتی تو مسئلہ کشمیر اس کی قراردادوں کے مطابق حل ہو چکا اور بھارت سول آبادیوں پر حملوں کی پاداش میں جنگی جرائم کی زد میں آچکا ہوتا۔
سشما سوراج کہتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین خوشگوار تعلقات قائم ہوتے ہیں تو کچھ عناصر حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر دیتے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ بھارت پر عالمی دبائو پڑتا ہے تو وہ مذاکرات کی میز پر آ جاتا ہے۔ دبائو کم ہوتے ہی بھیانک انداز میں مذاکرات کی میز کبھی ممبئی اور کبھی پٹھان کوٹ حملوں کی ڈرامہ بازی کر کے الٹ دیتا ہے۔ اس کی حکومتیں انتخابات میں کامیابی کیلئے بھی پاکستان کے خلاف جنگی جنون کو ہوا دینے سے گریز نہیں کرتیں۔ پلوامہ ڈرامہ بھی اس کی تازہ مثال ہے۔
سشما سوراج نے ایسی طاقتوں کی بات کی جو بھارت اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیں گی۔ ’’مہارانی‘‘ ان طاقتوں کی نشاندہی کر دیں جو بھارت اور پاکستان جیسے ایٹمی ممالک پر اس قدر اثر انداز ہو کر ان کو ایک دوسرے کے قریب آنے کی خواہش کے باوجود اس عمل سے باز رکھ سکتی ہیں۔ یہ خیالی قوتیں ہو سکتی ہیں جن کا وجود ہی نہیں ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ مل بیٹھنے، تعلقات میں گرم جوشی اور تجارت میں بہتری لانے کیلئے ہمیشہ تیار رہا اور اب بھی تیار ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک درجن سے زائد مرتبہ بھارت کو تعلقات بہتر بنانے کی پیشکش کی انہوں نے یہ تک کہا کہ بھارت ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو بڑھائیں گے۔ دونوں ممالک تعلقات میں بہتری کا تہیہ کر لیں تو کوئی تیسرا فریق یا طاقت قطعی طور پر مخل نہیں ہو سکتی۔ پاکستان تو اس پر ہمیشہ تیار اور پہل کرتا رہا ہے۔بھارت دونوں ممالک کے مابین تنازعات کے خاتمے کیلئے نیک نیتی کا ثبوت دے تو پاکستان بھارت تنازعات بلاتاخیر طے ہو سکتے ہیں،مگر بھارت نے ہمیشہ منافقت سے کام لیا۔ اس کا رویہ ہمیشہ بغل میں چھری منہ میں رام رام جیسا رہا ہے۔ آج جب سشما سوراج پاکستان کے ساتھ امن کی بات کر رہی ہیں تو عین اس موقع پر امریکی ریاست ایری زونا میں بھارت کو ہیلی کاپٹر حوالگی کی تقریب ہوئی۔ اپاچی ہیلی کاپٹرز کا پہلا دستہ بھارت جولائی میں بھیجا جانا متوقع ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی فضائیہ میں 2020ء تک امریکہ سے 13 ہزار 952 کروڑ روپے ڈیل کے بدلے 22 اپاچی ہیلی کاپٹرز شامل کئے جائیں گے۔ یہ تو بھارت کی پاکستان کے خلاف جنگی جنون کی ایک ادنیٰ مثال ہے وہ تو ایٹمی آبدوزیں اور بڑی تعداد میں جدید فائٹر اور بمبار بھی خرید رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی اور بڑا ایشو مسئلہ کشمیر ہے جو بھارت کا پیدا کردہ اور وہی اس کے حل کی راہ میں رکاوٹ ہے اس مسئلہ کے باعث تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں اور مزید کسی مہم جوئی کے خدشات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو دیگر پانی، سیاچن اور سرکریک جیسے تنازعات خود بخود طے ہو جائیں گے۔