محکمہ صحت تقسیم ہونے سے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا

Mar 13, 2025

ندیم بسرا

حکومت عوام میں مقبول ہو یا نہ ہو ،حکومت کے فیصلے عوام میںپذیرائی حاصل کررہے ہوں یا غیر مقبول ہو رہے ہوں اس کے برعکس شہریوں کو صحت ،تعلیم ،رہائش یا روزگار جیسی سہولیات  ان کا بنیادی حق ہوتی ہیں ۔مگر حکومت کو اپنے  دیگرمسائل سے فرصت نہ تو وہاں مذکورہ سہولیات ان کے لئے ایک چیلنج ہی بنی رہتی ہیں ۔پاکستان کی آبادی میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے وہاں شہریوں کی صحت ،تعلیم اور رہائش جیسے مسائل سے نمٹنا اولین ترجیحات میں شامل رہا ہے ۔پنجاب جہاں وزیراعلی مریم نواز کے کام کرنے کا انداز ماضی کے وزرائے اعلی سے بالکل مختلف ہے اور ان کے شروع کئے گئے پراجیکٹس اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں ۔اگرصحت کے شعبے کی بات کریں تو اس شعبے کے مسائل حکومت کو وراثت میں ملے ہیں جس کیو جہ سے ان مسائل کو کم کرنے کے لئے وزیراعلی پنجاب مریم نواز کو زیادہ محنت کرنا پڑرہی ہے۔حکومت پنجاب نے صحت کے شعبے میں کئی پراجیکٹس شروع کررکھے ہیں جس میں پیش رفت بھی جاری ہے مگر پنجاب کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ یہاں ہر شہری کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنا بہت بڑے چیلنج کا کام ہے ۔
کچھ روز قبل وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے میو ہسپتال کا دورہ کیا ،جہاں مریضوں اور ان کے لواحقین نے ادویات نہ ملنے کی شکایات کا انبارلگایا۔جس پروزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے میو ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو، ایم ایس(سی او او) کو ان کے عہدے سے ہٹادیا۔مریم نواز شریف نے میو ہسپتال میں ادویات کی100 فیصد فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی اور سیکرٹری ہیلتھ کو ذمہ داروں کی تعین کرکے کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔اس قسم کے مسائل صرف میو ہسپتا ل کے نہیں پنجاب کے باقی ہسپتالوں میں بھی ہیں مگر کیونکہ وہاں کے مسائل،زیادہ تر دب جاتے ہیں یا میڈیا کی زینت کم بنتے ہیں تاہم مسائل تو اپنی جگہ موجود ہیں ۔صحت کے شعبے میں مسائل میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں ،ایک بنیادی وجہ  سر فہرست یہ ہے کہ کہ محکمہ صحت پنجاب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے جس میں ایک محکمہ سپیشلائزد ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ڈیپارٹمنٹ اور دوسرا پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر محکمہ ہے ۔صحت کا شعبہ ایک ہی ہے مگر دونوں محکموں کے وزیر علیحدہ علیحدہ ہیں ایک شعبے کے وزیر خواجہ سلمان رفیق اور دوسرے کے وزیر خواجہ عمران نذیرہیں دونوں وزیروںکا اس شعبے میں اچھا تجربہ ہے ،مگرصحت کے ڈیپارٹمنٹ کودو جگہوں پر منتقل کرنے کے باوجود مسائل برقرار ہیں حالانکہ ایسا ہونا چاہیے کہ دو شعبے ہونے سے محکمہ کی کارکردگی بہتر ہو مگر ایسا نہیں ،نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ سیکرٹری سپیشلائزد ہیلتھ کئیر نہ تو پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر کے سیکرٹری کی بات سنتا ہے اور نہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیرکی سیکرٹری دوسرے کی بات سنتا ہے ۔دونوں شعبوں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے حالانکہ  دونوںمحکمہ صحت کے زیرانتظام ہی ہیں۔ڈاکٹرز کی رائے ہے کہ محکمہ صحت دوجگہوں پر تقسیم ہونے سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے نہ کہ کم ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی میٹنگز بھی الگ الگ کی جاتی ہیں حالانکہ وہی ڈاکٹرز ہیں وہی انتظامی لوگ،وہی سسٹم اور ہسپتالوں کی بلڈنگز بھی وہی پرانی ہیں ہر چیز پرانی ہے مگر دوشعبے بنادئے گئے ہیں ۔ڈاکٹرز کا ماننا ہے کہ محکمہ صحت پنجاب میں یہ تقسیم ختم ہونی چاہیئے تاکہ بہتری کی طرف جایا جائے ۔اس سلسلے میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کو خود اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ محکمہ صحت پنجاب ایک ہی ہو، تاکہ محکمے کی کارکردگی کو زیادہ اچھے طریقے سے پرکھا جاسکے۔وگرنہ جو مسائل موجودہ دور میں ہیں جیسے ہسپتالوں میں ادویات کی قلت ، ڈاکٹرز ، پیرا میڈیکل سٹاف کی قلت ،بیڈز کی قلت ،بلڈنگز کی حالت زارسمیت تمام مسائل کا انبار کم نہیں ہوگا ۔
میو ہسپتال کا شمارایشیاء کے بڑے ہسپتالوں میں کیا جاتا ہے ،لاہور کے میو ہسپتال جہاں وزیراعلی پنجاب کے دورے کے دوران ادویات کی قلت کا مسئلہ سامنے آیا اور وزیراعلی پنجاب کے نوٹس میں پہلی بار آیا جس کے ردعمل میں انہوں نے مذکورہ سربراہ کو فارغ کیا ۔اس کے برعکس میو ہسپتال کی مالی حیثیت کا اندازہ لگائیں توحالات یہ ہیں کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے زیر انتظام میوہپپتال کے ذمے 2019 سے مختلف مد میں اربوں روپے واجب الاداء رقم چلتی آرہی ہے ،جو تیس جون دوہزارچوبیس(30-6-2024) کو بڑھ کر تین ارب اکاسی کروڑ پچھتر لاکھ نو سو اینس روپے  ( 3,817,500,919) تک پہنچ چکی ہے ،واجب الادا رقم کو کم کرنے میں نہ تو ہسپتال کی انتظامیہ یا کنگ ایڈورڈ کی انتظامیہ نے کچھ کیا اور نہ محکمہ صحت پنجاب نے یہ بوجھ اٹھایا ہے ۔اس دوران رہنے والے تمام وزیرصحت بھی اس معاملے پر خاموش رہے اور سیکرٹریز صحت سمیت فنانس محکمے نے بھی اس بوجھ کو بڑھایا ہے ۔اور چشم پوشی کا مظاہرہ کیا ہے ۔اب ایک بات جو ذرائع بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ محکمہ صحت پنجاب اور محکمہ فنانس کی یہ پرانی رسم بن چکی ہے کہ وہ ہسپتالوں کو سال کا ایک بار بجٹ ریلیز نہیں کرتے ، ہسپتالوں کا سال کا بجٹ دینے کی بجائے تین تین ماہ کابجٹ دیا جاتا ہے اور ان پر ایک الزام یہ ہے کہ محکمہ فنانس اور محکمہ صحت پنجاب تین ماہ کے ریلیز شدہ بجٹ میں سے بھی کتوتی کرلیتا ہے اور عام بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ یہ بجٹ ترقیاتی سکیموں میں استعمال ہوگا ۔مثال کے طور پر ایک ہسپتال کو سال کے چار ارب روپے کے بجٹ اعلان ہوا ہو تو اس کی پہلی قسط تین ماہ کا بجٹ ایک ارب روپے بنتا ہے مگر ہسپتال میں پچاس کروڑ روپے سے کم دیا جاتا ہے ۔اس کی مثال یہ ہے کہ ماضی میں جب ڈاکٹر یاسمین راشد وزیر صحت پنجاب تھی تو انہوں نے پنجاب کے صحت کے بجٹ میں سے سو ارب روپے نکال کر یونیورسل ہیلتھ انشورنس، ہیلتھ کارڈ (صحت کارڈ سکیم)میں ڈال دیا تھا مگر یہ پیسہ ابھی تک اس سے ریکور نہیں ہوسکا۔اس وقت سے ہسپتالوں کی ادویات کی قلت شروع ہوئی جو ختم نہیں ہورہی۔ میوہسپتال کے بحران کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت پر ادویات خریداری کیلئے فنڈز جاری کردئیے گئے ہیں۔وزیراعلی مریم نواز شریف کی ہدایت پر 340 ملین روپے میڈیسن پرچیز کے لئے منتقل کر دئیے گئے۔میو ہسپتال میں خالی آسامیاں کی پے اور الاؤنس  کے موجود فنڈز ادویات خریداری کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دیدی گئی۔فنانس ڈیپارٹمنٹ نے پے اینڈ الاونس فنڈز ازسرنو مختص کرنے کا حکمنامہ جاری کر دیا۔

مزیدخبریں