حالیہ چیمپئنز ٹرافی میں نیوزی لینڈ اور بھارت کے ہاتھوں بدترین اور شرمناک شکست کا غم ابھی کم نہیں ہوا کہ رحمتوں اور برکتوں کے اس ماہ مبارک میں سالہا سال سے جاری ملکی قرضوں کی ادائیگی میں حائل رکاوٹوں‘ روزافزوں مہنگائی پر قابو پانے، بیرونی ممالک سے پاکستان میں کی جانے والی سرمایہ کاری، مختلف نوعیت کے دیئے فنڈز اور تنخواہ دار طبقے کی سہولتوں سمیت اقتصادی امور کا جائزہ لینے کیلئے انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کی 9 رکنی ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے۔ یہ ٹیم جہاں 2025-26ء کے بجٹ کا جائزہ لے گی‘ وہیں پاکستان کو دیئے جانے والے 7 ارب ڈالر قرض کے لیئے مختص کی گئی قسطوں پر بھی مذاکرات کریگی جبکہ تنخواہ دار طبقے کو دی جانے والے ریلیف کا دارومدار آئی ایم ایف وفد کی رضامندی سے مشروط ہو گا۔ وفد وزارت خزانہ توانائی منصوبہ بندی اور سٹیٹ بنک سے بھی مذاکرات کریگا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کو موسمیاتی تبدیلیوں اور زیرتکمیل منصوبوں کے بارے میں بھی بریفنگ دی جائیگی‘ علاوہ ازیں آئی ایم ایف کا یہ وفد مالی خسارہ‘ غیرضروری اخراجات‘ ریلوے‘ سرکاری اداروں کے مالی امور‘ غیرملکی سرمایہ کاری‘ سرکاری محکموں میں بھرتیوں اور قومی ایئرلائن پی آئی اے کی تازہ ترین صورتحال کا بھی جائزہ لے گا۔ یاد رہے کہ چند ہفتے قبل آئی ایم ایف‘ پی آئی اے کو جلد از جلد پرائیویٹائز کرنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ اس بارے میں وزیراعظم شہبازشریف پہلے ہی آئی ایم ایف کے مطالبے پر پی آئی اے کو جون 2025ء تک پرائیویٹائز کرنے کی ہدایت دے چکے ہیں۔ نجکاری کمیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی ایئرلائن کی نجکاری اکتوبر کی بجائے‘ اب جون میں کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ’’ہیں۔‘‘ باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس کو یہ دن بھی دیکھنے تھے‘ یہ خیال آتے ہی مغموم ہو جاتا ہوں اور پھر اس سوچ میں گم ہو جاتا ہوں کہ وہ پی آئی اے جس کا 62ء کی دہائی میں شمار دنیا کی منافع بخش اور بہترین فضائی سفر مہیا کرنے والی بڑی ایئرلائنز میں ہوتا تھا‘ وہ پی آئی اے جس نے ’’امارات‘‘ ایئرلائن کو دنیا میں پہچان دلوائی‘ آج انتہائی بدترین خسارے سے ہی دوچار نہیں‘ نجکاری کے عمل سے گزرنے کیلئے بھی اسے آئی ایم ایف کے شدید دبائو کا سامنا ہے۔ مقروض ملک و قوم کیلئے یہ ایک ایسا زخم ہے جو اب ناسور بن چکا ہے۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ پرانے زخموں کو ہرگز کریدنا نہیں چاہیے‘ مگر افسوس! یہ زخم ایک ایسا قومی زخم ہے جس کا فوری اور دیرپا علاج اب ناگزیر ہے۔ علاج کی توقع ماضی کی حکومتوں سے تھی مگر افسوس‘ وہ علاج اب عالمی مالیاتی فنڈ کرنے جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے کئے گئے دیگر سخت مطالبات سمیت پی آئی اے کو منافع بخش کی سٹرٹیجی بھی سرفہرست ہے۔ 2022-23ء کے درمیان ایئرلائن کو 52 ملین ڈالرز کے بھاری خسارے‘ لیز پر حاصل کئے بوئنگ ٹرپل سیون طیاروں کی بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق کمزور مینٹیننس، 24 طیاروں کے فلیٹ کیلئے مبینہ طور پر 27 ہزار سے زائد عملہ کی تعیناتی اور شرمناک خسارے کو پورا کرنے کیلئے 25 ارب روپے کی اضافی امداد کا بھی وفد جائزہ لے گا۔ دوسری جانب پی آئی اے انتظامیہ نے پروازوں کیلئے ناکارہ اور گرائونڈ کئے جانے والے تین طیاروں کو فروخت کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق جس وقت یہ سطور شائع ہونگی‘ دس ہزار روپے کی نیلامی فیس کے ساتھ بولی کا مرحلہ شروع ہو چکا ہوگا۔ اسی طرح پی آئی اے کو مزید منافع بخش بنانے کیلئے نیویارک سٹی کے معروف علاقے Manhattan میں واقع سو سالہ روزویلٹ ہوٹل کو، جو پی آئی اے کی ملکیت ہے، کچھ عرصہ قبل امریکہ میں پناہ کے متلاشی تارکین وطن کی رہائش کیلئے تین سالہ معاہدہ پر دے دیا گیا تھا۔ اگلے روز وہ معاہدہ اب ختم کر دیا گیا ہے۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق ہوٹل کے اس معاہدے کی ملکیت 220 ملین ڈالر تھی۔ آئی ایم ایف ٹیم دوران مذاکرات پاکستانی حکام اور مختلف شعبوں کے سربراہان سے قرض کی واپسی اور اداروں میں بچت کے حوالے سے اور کیا امور طے کرتی ہے‘ یہ تو اب وقت بتائے گا مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے معاشی و اقتصادی مسائل پر آئی ایم ایف اپنا دبائو ہر حال میں برقرار رکھتے ہوئے آڈٹ کیسز پر بدستور تحفظات جاری رکھے گا۔
تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی تعمیر و تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اپنے 85 سالہ موقر نظریاتی اخبار نوائے وقت کی پیشانی پر یکم مارچ 2025ء سے قائداعظم محمدعلی جناح کے فرمان کے اضافے سے شائع ہونے والے جملے ’’قائداعظم کے فرمان پر شروع ہونے والا پہلا اردو اخبار‘‘ پر دنیا بھر میں پھیلے قارئین جہاں بانی مدیر حمید نظامی مرحوم اور امام صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں‘ وہیں نوائے وقت گروپ کی منیجنگ ڈائریکٹر اور ڈاکٹر مجید نظامی کی بیٹی مادام رمیزہ نظامی کی جانب سے تحریک آزادی کے علمبردار اس نظریاتی اخبار کا معیار برقرار رکھنے پر انکی شبانہ روز کاوشوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اخبار کی پیشانی پر لکھے مذکورہ اس جملے کی سوچ و فکر کا کریڈٹ سابق لیفٹیننٹ کرنل اور نوائے وقت گروپ کے انتہائی چاک و چوبند چیف آپریٹنگ آفیسر اور محقق سید احمد ندیم قادری (تمغہ امتیاز) کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اخبار کی اشاعت کے 85 برس مکمل ہونے پر لفظ ’’قائد کے فرمان‘‘ کی منظوری کیلئے منیجنگ ڈائریکٹر و ایڈیٹر مادام رمیزہ مجید نظامی کو تجویز پیش کی جسے ایڈیٹر صاحبہ نے منظور کرلیا۔ بلاشبہ یہ کریڈٹ اخبار کے دیگر تمام شعبوں میں انتہائی محنت اور دیانتداری سے فرائض سرانجام دینے والے کارکنان کو بھی جاتا ہے جن کی نظریاتی سوچ و فکر اور غیرمعمولی صلاحیتوں نے نوائے وقت کو دنیا بھر میں ملکی اور غیرملکی نایاب معلومات کا ایک خزینہ بنا رکھا ہے‘ اخبار اور کارکنان کی سلامتی کیلئے دعا۔