جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے ماہ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو تمام سیونگ اکاؤنٹس سے سرکاری طور پر زکوٰۃ کی کٹوتی کی جاتی ہے اور یہ رقم بیت المال و دیگر سرکاری اداروں کے ذریعے مدارس‘ فلاحی اداروں‘ صحت کے شعبے میں مستحقین اور مستحق فیملیز کو ماہانہ وظیفے کے طورپر دی جاتی ہے۔ زکوٰۃ دین کا اہم ترین ستون ہے اور اس بات کی ضمانت ہے کہ اگر معاشرہ پوری ایمانداری کے ساتھ زکوٰۃ و عشر کی ادائیگی کرے تو یقینی طور پر زکوٰۃ لینے والا نہ ملے اور زکٰوۃ دینے والے رقم لیکر مستحقین کی تلاش کرتے پھریں لیکن ہم دیگر برائیوں کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ و عشر کو نظرانداز کردیتے ہیں جس کا نتیجہ معاشرے میں بھوک و افلاس کے باعث خودکشیوں کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی جانب سے بے موسمی بارشوں اور ژالہ باری کے باعث فصلوں کی تباہی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جب زکوٰۃ و عشر کی ادائیگی کی جاتی تھی تو کبھی بھی بے موسمی بارشیں نہیں آتی تھیں اور فصلیں جدید کھاد و دیگر آلات کے بغیر بہت اچھی ہوا کرتی تھیں لیکن عشر کی ادائیگی نظر انداز کئے جانے کے بعد حالت یہ ہے کہ ہر سال جب فصل تیار ہوتی ہے تو بے موسمی بارشیں اور ژالہ باری کے باعث کسانوں کی محنت ضائع ہوجاتی ہے لیکن بطور مجموعی ہم پھر بھی اللہ رب العزت کے اشارے سمجھنے سے قاصر ہیں۔
زکوٰۃ کی تقسیم کا دائرہ کار قریبی رشتے داروں سے شروع ہوکر پڑوس‘ محلہ‘ علاقہ اور شہر تک ہوتا ہے۔ اس میں گھر کے قریبی ایسے مدارس جہاں طلباء رہائش پذیر ہوں، کو بھی دینی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے سوشل ویلفیئر اداروں کو زکٰوۃ دینی چاہئے جو انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں خبر آئی کہ بلوچستان میں 30کروڑ زکوٰۃ کی تقسیم پر ایک ارب 60کروڑ روپے اخراجات کئے گئے جس پر نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے زکٰوۃ کا محکمہ ختم کردیا۔ زکوٰۃ کی سرکاری کٹوتی کے بعد یہ رقم مستحق فیملیز کو ماہانہ وظیفے کے طور پر دی جاتی ہے جس سے ان کی گزر بسر ناممکن ہے تو دوسری طرف وہ فیملی اگلے مہینے دوبارہ سرکاری زکوٰۃ کی رقم کے حصول کی منتظر ہوتی ہے۔ زکوٰۃ کے موجودہ نظام کے باعث ہی لوگ سرکاری طور پر زکوٰۃ کٹوتی سے استثنٰی کا اسٹامپ پیپر جمع کرادیتے ہیں جس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ ہم اپنی زکوٰۃ خود دیں گے اور حکومت ہم سے کٹوتی نہ کرے کیونکہ موجودہ نظام سے مستحقین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور جن فیملیز کو زکوٰۃ فنڈ سے امداد ملتی بھی ہے تو وہ وقتی طور پر آسودگی کے بعد دوبارہ امداد کے منتظر ہوتے ہیں۔
زکوٰۃ کا موجودہ نظام بالکل اسی طرح ہے جس طرح موجودہ حکومت غرباء کے لئے لنگر خانے کھول رہی ہے اور غرباء کو سرکاری لنگر خانوں سے خوراک اور رہائش کی سہولت دیکر یہ سمجھا جارہا ہے کہ ہم نے غربت کا مسئلہ حل کردیا۔ غربت و افلاس کے مسائل کا حل لنگر خانوں میں نہیں بلکہ انہیں باعزت روزگار‘ صحت و تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی میں ہے۔ ان سہولیات کی فراہمی میں اب تک کی تمام حکومتیں مکمل ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان کی ترجیحات میں غربت مٹانے کی دور رس پالیسی کی تشکیل اور اس پر عملدرآمد کبھی نہیں ہوا۔
میں اس سلسلے میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ کیا ہی اچھا ہو اگر حکومت زکوٰۃ فنڈ سے چاروں صوبوں کے ایک ایک پسماندہ ترین ضلع کو منتخب کرے اور وہاں زکوٰۃ فنڈ سے ایسی انڈسٹری قائم کرے جس سے اس ضلع کے مستحقین کو باعزت ایسا روزگار میسر آجائے جس سے وہ اپنی محنت مزدوری کی کمائی سے اپنا گھر چلاسکیں اور ہر ماہ سرکاری امداد کے منتظر نہ رہیں۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جس سے ہم ہر سال 4اضلاع کے زکوٰۃ مستحقین کو غربت سے نکال کر باعزت روزگار دے سکتے ہیں اور پھر ان اضلاع کے عوام ہر ماہ زکوٰۃ فنڈ سے رقم کے منتظر نہیں رہیں گے۔
یہی سلسلہ ہر سال چلتا رہے اور اگلے سال دوبارہ چاروں صوبوں کے پسماندہ ترین 4اضلاع کا انتخاب کرکے وہاں ایسی انڈسٹری بنائی جائے جس سے مقامی زکوٰۃ مستحقین کو باعزت روزگار میسر آجائے۔ یہی سلسلہ اگر 10سال باقاعدگی سے چلتا رہے تو ملک بھر کے 40اضلاع کے زکوٰۃ مستحقین باعزت روزگار حاصل کرکے سرکاری امداد کے انتظار سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔ حکومت اس نظام کو فوری طور پر رائج کرکے اس کی تشہیر کرے اور پھر اس کے مثبت نتائج کی میڈیا کے ذریعے عوام کو آگاہی دی جائے کہ حکومت اپنے غریب عوام کو زکوٰۃ فنڈ سے باعزت روزگار کی فراہمی کے لئے کس طریقے سے موثر منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے اور حکومت کا مقصد زکوٰۃ مستحقین کی تعداد میں کمی لانا ہے۔ اس پورے طریقہ کار اور اس کے ثمرات کی تشہیر کے بعد مجھے یقین ہے کہ عوام کا سرکاری زکوٰۃ فنڈ پر اعتماد بحال ہوگا اور لوگ بینکوں و دیگر بچت کے اداروں میں زکوٰۃ کٹوتی کا Declarationدینا چھوڑ دیں گے کیونکہ انہیں اعتماد ہوگا کہ حکومت ان کی زکوٰۃ کی رقم کا بہترین استعمال کر رہی ہے۔
اگر لوگوں کا سرکاری زکوٰۃ کے نظام پر اعتماد بحال ہوجائے تو حکومت اگلے کچھ سالوں بعد ہر سال چاروں صوبوں کے 2-2اضلاع میں انڈسٹریز کا قیام عمل میں لاسکتی ہے اور غربت میں کمی کی شرح میں زبردست بہتری لائی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے یہاں سرکاری زکوٰۃ فنڈ کو ایسی ایسی جگہوں پر استعمال کرکے ’’مال مفت‘ دل بے رحم‘‘ کے مصداق خرچ کیا جاتا ہے جس کی خبریں آنے پر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور ان کا رہا سہا اعتماد بھی سرکاری زکوٰۃ کے نظام سے ختم ہوجاتا ہے۔زکٰوۃ کی حقدار تک رسائی کی ذمہ داری بہت نازک معاملہ ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی سے روز محشر سخت عذاب کی وعید ہے۔ اس لئے اس معاملے میں حکومت کو موثر ترین اصلاحات کرنی چاہئیں اور ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس سے لوگ لنگر خانوں اور زکوٰۃ فنڈ سے امداد کے منتظر نہ رہیں بلکہ وہ اپنی روٹی روزی خود کرسکیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو باعزت روزگار‘ صحت و تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرے نہ کہ سرکاری وسائل زور آور استعمال کریں اور غریب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غریب تر ہوتا چلا جائے۔
عشر کی ادائیگی تو زمینداروں کی اپنی صوابدید پر ہے کہ وہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر عشر کی ادائیگی منصفانہ طریقے سے کریں اور یہ معیار نہ رکھا جائے کہ کونسا شخص مستقبل میں میرے کتنے کام آسکتا ہے‘ اسی معیار کو سامنے رکھ کر عشر دیا جائے۔ بلکہ عشر کی ادائیگی میں غریب ترین شخص کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے اور عشر کی ادائیگی میں لاپرواہی سے یقینی طور پر بے اللہ ناراض ہوگا اور موسمی بارشوں و ژالہ باری سے فصلیں تباہ ہی ہوں گی۔
زکوٰۃ کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت
Mar 13, 2025