طالبات کے تاریخی تعلیمی ادارے کی درد بھری کہانی

انجمن مدرسۃ البنات کی طالبات کی تعلیم کے حوالے سے خلوص خدمت اور قربانی کی اپنی ایک تاریخ ہے جو بر صغیر میں قیام پاکستان سے پہلے سے آج تک پھیلی ہوئی ہے۔چند دن پہلے میں اپنی دختر گائنی سرجن ڈاکٹر طائلہ امبر کے ساتھ اس انجمن کے تحت قائم طالبات کے لیک روڈ لاہور پر قائم کیمرج مدرسۃ البنات ہائر سیکنڈری سکول کی سالانہ تقریبات میں شریک ہوا ۔ جس کا قیام قیام پاکستان سے بہت پہلے 1907ء جالندھر میں ایسے حالات میں ایک مرد حر م مولانا عبدالحق عباس کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا تھا جب مسلمان ہندئووں اور انگریزوں کی سازشوں میں گھرے تھے اور مسلمان طالبات تو ایک طرف طلبا کیلئے بھی تعلیمی ادارے کم کم تھے ۔ لیک روڈ پر قائم کیمرج مدرسۃالبنات کے تعلیمی معیار کا ثبوت میری تینوں بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک تومہمان خصوصی کے طورپر اس کی سا لانہ تقریبات میں موجود تھیں اور دوسری دونوں یعنی ڈاکٹر رطابہ کرن اور ڈاکٹر ندا ایلی میڈیکل میں پاکستان کی سب سے بڑی ڈگری ایف سی پی ایس کے حصول کے بعدگورنمنٹ کے مختلف میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اس ادار سے فار غ التحصیل تمام طالبات کا مستقبل ایسا ہی شاندار رہا ہے ۔ اس روز تقریبات کا اصل سیشن تو توقع کے مطابق طالبات کی شاندار کارکردگی پر مشتمل تھا ہم نصابی سرگرمیوں کے مظاہرے نے طالبات کے والدین کی آنکھوں میں چمک دو چند کر دی اور یقینا اس کا کریڈٹ سپورٹس انچارج کے ساتھ پرنسپل مسز عابدہ ارشد ڈپٹی ایڈمنسٹریٹو آفیسر مسز رخشندہ اور سینئر سیکشن کی ہیڈ مسٹریس مس راحیلہ انور اور جونیئر سیکشن کی ہیڈ مسٹریس سائرہ سلطان کو جاتا ہے ۔ مثالی ڈسپلن کا مظاہر ہ کیا گیا اور بہترین کارکردگی والی طالبات کو درجہ بہ درجہ انعامات سے بھی نوازا گیا لیکن جب اس ادارے کے مسائل اور معاملات کی بات چھڑی تو بہت دکھ ہوا کہ کیسے کیسے مسائل اور مشکلات کا اس تاریخی ادارے کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی ایک صدی کی مسلم امہ کی خدمت کی تاریخ ہے۔ اگرچہ کیمرج مدرسۃ البنات ہائر سیکنڈری سکول کی انتظامیہ اپنی موجودہ حالت میں بھی جدید زمانے کی تمام سہولتیں جدید کمپیوٹرلیب ضخیم لائبریری سائنس لیباریٹری سومنگ پو ل سپورٹس کے تمام کورٹ ہم نصابی سرگرمیاں کویز مقابلے قرات نعت خوانی اورمباحثے سب کچھ کا اہتمام کرتی ہے اور بہترین اساتذہ کی ٹیم ان کے پاس ہے لیکن وہ بہت سے ایسے مسائل سے دوچار بھی ہے جسکا تعلق ماضی میں حکومتی سطح پر بے حسی بعض افراد کے ذاتی مفادات اور ریکارڈ اور ثبوت کے باوجود اعلی سطح پر فیصلوں کے دوہرے معیار ہیں۔ اس ادارے کے مسائل کا آغاز اس وقت ہوا جب 1972ء میں بھٹو دور میں اسکے تین سیکشن اردو میڈیم کو نیشنلائز کر لیا گیا اسکی اپنی وسیع و عریض جگہ جو طالبات کے تمام سیکشنوں کیلئے اجتماعی طور پر استعمال ہوتی تھی اسکے حصے بخرے کئے جانے لگے انجمن کے پاس صرف کیمرج مدرسۃ البنات ہائر سیکنڈری سکول کی عمارات اور ملحقہ اراضی رہ گئی اگرچہ اسکے ساتھ ہی ایف سی کالج کو بھی نیشنلائز کی گیا تھا ۔ مگر سابق صدررشرف کے دور میں ایف سی کالج اور اسکی تمام اراضی کو واپس سابق انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا ۔ وعدہ تو انجمن مدرسۃ البنات کے ساتھ بھی یہی تھی لیکن یہا ں فیصلہ سازوں نے دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا اور انجمن کوجس کی تعلیمی خدمات ایک صدی پر محیط تھیں انصاف نہیں دیا گیا ۔نہ صرف یہ کہ انجمن کو ضابطے اور وعدے کیمطابق اسکے ادارے واپس نہیں کئے گئے۔ مدرسۃ البنات کے جونیر اور سینئر سیکشن کی طالبات انکے اساتذہ اور دوسرے سٹاف کو توڑ پھوڑ تجاوزات اور آئے دن کی مداخلت سے پریشان کرنا شروع کر دیا ۔ المیہ یہ رہا ہے کہ ایسے تمام اقدامات کی کسی نہ کسی حوالے سے سرکاری سرپرستی ہوتی رہے ہیں ان حالات میں انجمن کی طرف سے عدالتوں کا دروازہ ہی کھٹکھٹایا جا سکتا تھا سو جب بھی کوئی غیر قانونی تعمیر ہونے لگتی انتظامیہ عدالت کا رخ کرتی وہا ں سے انجمن کے حق میں احکامات جاری ہوتے اور ان احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پھر کوئی شرارت شرو ع کردی جاتی ۔ جہاں قائد اعظم مولانا ظفر علی خان علامہ سید سلمان ندوی سمیت مختلف اکابر آتے رہے ا اور اسکی کارکردگی کو سراہتے رہے اور قیام پاکستان کے بعد بھی محترمہ فاطمہ جناح جیسی شخصیت نے 1953 ء میں جس تعلیمی ادارے کا وزٹ کیا۔ وہ آج چند ذاتی مفاد پرستوں کی طرف سے کیوں پریشانی کی آخری حد پرہے۔ کیا کوئی عدالت اسکے معاملات کے حوالے سے بھی از خود نوٹس لے گی ۔کیا حکمرانوں میں میں سے کوئی یہ دیکھ گا کہ کیسے نہ صرف یہ کہ انجمن کو باقی اداروں کی طرح ڈی نیشنلائزیشن کی پالیسی کی پالیسی کے تحت ادارے واپس نہیں کئے گئے بلکہ اسے زبردستی حاصل کئے گئے تعلیمی یونٹوں کی انتظامیہ کی طرف سے تجاوزات اور گنجاش سے زیادہ داخلوں کا سلسلہ جاری رکھ کر اصل تعلیمی ادارے اسکی طالبات اساتذہ اور انتظامیہ کو مسلسل پریشان کیا جا رہا ہے۔