نیا عمرانی معاہدہ اپنے بچائو کیلئے نہیں‘ خالصتاً ملک اور عوام کے فائدے کیلئے ہونا چاہیے

نوازشریف سے بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات ۔ اختلافات ختم کرنے اور نئے میثاق جمہوریت پر اتفاق
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ملاقات کے دوران قومی سیاست میں آئندہ مل کر چلنے پر اتفاق کیا گیا۔ یہ ملاقات گزشتہ روز کوٹ لکھپت جیل میں ہوئی جس کیلئے پیپلزپارٹی پنجاب کی جانب سے حکومت پنجاب سے خصوصی اجازت لی گئی تھی۔ اس ملاقات میں جو ایک گھنٹہ تک جاری رہی‘ پیپلزپارٹی کے عہدیداران قمرالزمان کائرہ‘ حیدرعلی گیلانی‘ جمیل سومرو‘ حسن مرتضیٰ شاہ اور سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر بھی شریک ہوئے۔ دوران ملاقات میاں نوازشریف کی مزاج پرسی کے علاوہ آئین کی دفعات 63, 62 کو ختم کرنے اور آئندہ میثاق جمہوریت پر عملدرآمد سمیت مختلف سیاسی موضوعات پر تفصیل سے بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے میاں نوازشریف کو سندھ میں علاج کرانے کی پیشکش بھی کی گئی جس پر نوازشریف کی جانب سے سوچ بچار کی یقین دہانی کرائی گئی۔ دوران ملاقات بیگم کلثوم نواز کیلئے دعائے مغفرت بھی کی گئی اور تمام سیاسی اختلافات ختم کرکے مل کر چلنے اور ماضی کی غلطیوں کا اعادہ نہ ہونے دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس گفتگو میں طے کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مستقل اتحاد کیلئے دونوں جماعتوں کے سینئر رہنمائوں پر مشتمل گروپ تشکیل دیئے جائیں جو اس سلسلہ میں باہمی ملاقات کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ میثاق جمہوریت پر نظرثانی کی جائے۔ ہمیں آج کی صورتحال اور سیاسی مشکلات پر بھی بات کرنا ہوگی اور ایک نیا ڈاکومنٹ بنانا ہوگا۔ انہوں نے میاں نوازشریف کی صحت پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ نوازشریف ڈیل کے موڈ میں نہیں ہیں‘ وہ اپنے اصولوں پر قائم ہیں۔ انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ جو ملک کا تین بار وزیراعظم بنا‘ وہ کوٹ لکھپت جیل میں سزا بھگت رہا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ نوازشریف کا بہترین علاج کرایا جائے۔ انہوں نے مریم نواز سے بھی ملاقات کا عندیہ دیا اور ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انکے والد اور نانا نے جیل میں وقت گزارا‘ میں نہیں چاہوں گا کہ عمران جیل میں آئیں اور انکے بچوں کو ادھر اُدھر ملاقات کیلئے جانا پڑے۔
سیاسی جماعتوں میں یقیناً اختلافات بھی ہوتے ہیں مگر ہمارے سیاسی نظام میں بدقسمتی سے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کا رنگ دیکر سیاسی محاذآرائی کو اس انتہاء تک پہنچایا جاتا رہا ہے کہ عوام میں جمہوری نظام کیلئے بدگمانی اور منافرت کی فضا پیدا ہوتی رہی جس سے طالع آزماء غیرجمہوری عناصر کو جمہوریت کی بساط الٹا کر ماورائے آئین اقدام کے تحت اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع ملتا رہا۔ چنانچہ 70ء کی دہائی سے 90ء کی دہائی تک کے محاذآرائی والے کلچر میں جمہوریت کا مردہ خراب ہونے کی مناظر ہی سامنے آتے رہے ہیں۔ اس وطن عزیز میں اقتدار کی رسہ کشی کا کھیل تو بانیٔ پاکستان قائداعظم کے انتقال کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا جس کے باعث محلاتی سازشوں کا دور دورہ ہوا اور مستحکم جمہوری نظام کی بنیاد نہ رکھی جاسکی۔ یہ کلچر دراصل مفاد پرستوں کے سیاست میں در آنے سے پیدا ہوا تھا جس میں قیام پاکستان کے عوام کی فلاح اور اقتصادی استحکام سے متعلق مقاصد بھی گہناتے رہے اور رواداری والی جمہوری اقدار بھی پرورش نہ پاسکیں۔ اس سے ہی سکندر مرزا کو ملک میں شخصی آمریت قائم کرنے اور ایوب خان کو ماورائے آئین اقدام کے تحت ملک میں پہلی بار جرنیلی آمریت مسلط کرنے کا موقع ملا جنہوں نے اپنے دس سالہ اقتدار کے بعد اپنے خلاف اٹھنے والی عوامی تحریک سے زچ ہو کر اقتدار جنرل یحییٰ خان کو منتقل کر دیا جن کے ہاتھوں ملک کے دولخت ہونے کا سانحہ ہوا چنانچہ یہ قومی المیہ جرنیلی آمریت کے ساتھ منسوب ہوگیا جبکہ سیاست دانوں کی اقتدار کیلئے رسہ کشی بھی اس قومی سانحہ کے پس پردہ محرکات میں شامل تھی جس میں ’’اُدھر تم‘ اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ لگا اور اس نعرے کے محرکین ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان کو سقوط ڈھاکہ کے بعد بالترتیب پاکستان اور نوتشکیل شدہ بنگلہ دیش کے اقتدار پر براجمان ہونے کا موقع مل گیا۔
رواداری کی سیاست میں اگر ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا کلچر اپنایا جاتا تو شاید پاکستان کے دولخت ہونے کی نوبت نہ آتی جبکہ باہم دست و گریبان ہونے کی سیاست میں جہاں وطن عزیز کی سلامتی کا خون ہوا وہیں شیخ مجیب بھی جلد ہی اپنے خاندان سمیت قتل ہو کر انجام کو پہنچ گئے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف بھی ایک مضبوط لابی سرگرم عمل ہوگئی جس نے نہ صرف بھٹو کے اقتدار کی بساط الٹانے کی راہ ہموار کی بلکہ ملک میں تیسری بار جرنیلی آمریت مسلط کرنے کا بھی موقع فراہم کر دیا جس کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو بھی تختۂ دار تک آپہنچے۔ اسکے باوجود سیاست دانوں نے اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا اور بھٹو کے مخالف سیاست دان ضیاء الحق کی جرنیلی آمریت کے ساتھ جڑ گئے‘ اس طرح محاذآرائی کی سیاست بھی پنپتی رہی۔ بے شک کئی بھٹو مخالف سیاسی جماعتوں نے بھی بحالی ٔ جمہوریت کیلئے ایم آرڈی کے پلیٹ فارم پر پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی اتحاد کیا اور سات سال تک اکٹھے جدوجہد کی جس کے دوران انہیں قیدوبند کی کٹھنائیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا جبکہ ایم آرڈی کی مخالف جماعتوں نے محاذآرائی کی سیاست میں جمہوری اقتدار پنپنے ہی نہ دیا اور خود کو جرنیلی آمریت کے ساتھ نتھی رکھا۔ محاذآرائی کی اس سیاست میں 1985ء کی غیرجماعتی اسمبلی تشکیل پائی جس نے ضیاء الحق کو آئین کی دفعہ 58-2(B) کے تحت اسمبلیاں توڑنے کے صوابدیدی اختیار تفویض کئے چنانچہ انہوں نے اپنی ہی تشکیل کی گئی یہ اسمبلی توڑنا بھی اپنا اعزاز بنایا مگر انکی زندگی نے انہیں اپنی من مرضی کی اگلی اسمبلی کیلئے انتخابات کرانے کی مہلت ہی نہ دی تاہم انکی پروان چڑھائی گئی سیاسی محاذآرائی کی فضا میں ہی 88ء کی اسمبلی کے انتخابات ہوئے جو بھٹو مخالف جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پر لڑے جس میں میاں نوازشریف کا انٹی بھٹو سیاست کا تشخص ابھر کر سامنے آیا۔ انہوں نے آئی جے آئی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت کے ساتھ محاذآرائی کی انتہاء کردی جس سے منافرتوں کی سیاست مستحکم ہوئی اور 90ء کی دہائی تک اسی سیاست کا دور دورہ رہا چنانچہ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرکے جمہوریت کا مردہ خراب کیا جاتا رہا۔ اگرچہ میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں صدر کے صوابدیدی اختیارات والی آئینی شق ختم کرادی تھی مگر اس سے پہلے انہوں نے اس صوابدیدی اختیار کے تحت فاروق لغاری کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرانے کی راہ ہموار کردی تھی جبکہ وہ خود بھی اپنے اقتدار کو مشرف کے ماورائے آئین اقدام سے نہ بچاپائے اور پھر مشرف کے اقتدار میں ہی ایک دوسرے کی متحارب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو عقل آئی کہ باہم دست و گریباں ہو کر انہوں نے جمہوری نظام کو ہی خراب کیا ہے چنانچہ انہوں نے سیاسی اتحاد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک کا اکٹھے آغاز کیا اور پھر بے نظیر بھٹو کی لندن جلاوطنی کے دوران اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر اس اتحاد کے قائدین کے مابین لندن میں میثاق جمہوریت طے پایا جس کے ذریعے عہد کیا گیا کہ آئندہ اپنی مخالف کسی جمہوری حکومت کو ختم کرانے کیلئے کسی جرنیلی آمر کو اپنا کندھا فراہم نہیں کیا جائیگا اور نہ ہی کوئی ایسا اقدام اٹھایا جائیگا جس سے جمہوریت پر زد پڑتی ہو۔ اس معاہدے کے بعد بھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا اور 2008ء کے انتخابات کے بعد ان دونوں جماعتوں نے شراکت اقتدار بھی کی مگر انہی کے ہاتھوں پختہ ہونیوالی سیاسی محاذآرائی کی فضا سے خلاصی نہ پائی جاسکی۔ مسلم لیگ (ن) دو ماہ بعد ہی اقتدار سے باہر آگئی اور پیپلزپارٹی کے اقتدار کیخلاف صف آراء ہوگئی۔ اسی طرح 2013ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کیخلاف صف آراء رہی اور میثاق جمہوریت دھرے کا دھرا رہ گیا۔ محاذآرائی کی اس فضا سے عوام بھی متنفر ہوئے جن کے روٹی روزگار کے مسائل گمبھیر ہوگئے تھے۔ چنانچہ محاذآرائی کی اسی فضا میں 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو اقتدار کا مینڈیٹ حاصل ہوگیا۔ اس کا موقع بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی باہمی مناقشوں اور مفادپرستی کی سیاست کے باعث پیدا ہوا جنہوں نے باہم متحد نہ ہونے کے باعث پی ٹی آئی کے ہاتھوں وفاق اور تین صوبوں میں شکست کھائی۔
آج پیپلزپارٹی سندھ میں اقتدار میں ہونے کے باوجود احتساب کے عمل کی زد میں ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت احتساب کے عمل میں قیدوبند کا سامنا کررہی ہے۔ جیل میں میاں نوازشریف کی علالت اپنی جگہ تشویشناک ہے جنہیں بہرصورت علاج معالجہ کی تمام سہولتیں دستیاب ہونی چاہئیں تاکہ کسی کو انکی علالت پر سیاست چمکانے کا موقع نہ مل سکے۔ اسی طرح احتساب کے عمل پر بھی کسی قسم کی مفاہمت کی گنجائش نہیں نکالی جانی چاہیے اور جس نے بھی اپنے اقتدار و اختیار سے ناجائز فائدہ اٹھا کر خود بھی لوٹ مار کی ہوئی ہے اور ناجائز بخشیاں بھی کی ہیں‘ انہیں احتساب کے عمل سے بہرصورت گزرنا چاہیے جو بے لاگ ہوگا تو عوام کا بھی احتساب کے عمل پر اعتماد قائم ہوگا۔ اس فضا میں اگر آج ایک دوسرے کی متحارب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں قربتیں پیدا ہورہی ہیں تو بادی النظر میں اس سے یہی نتیجہ اخذ ہورہا ہے کہ انہیں احتساب کے عمل سے خود کو بچانے کیلئے باہمی اتحاد کی مجبوری لاحق ہوئی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے میاں نوازشریف کی مزاج پرسی کیلئے کوٹ لکھپت جیل جا کر بلاشبہ سیاسی رواداری کا وہ راستہ ہموار کیا ہے جس کی 90ء کی دہائی سے اب تک ضرورت محسوس کی جارہی تھی تاہم سیاسی رواداری کی یہ فضا ایک دوسرے کو احتساب کے عمل سے بچانے کیلئے نہیں‘ جمہوری نظام کو مستحکم بنانے اور عوام کو اس نظام سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کرنے کیلئے استوار کی جانی چاہیے۔ اگر اس مقصد کیلئے محض پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہی نہیں‘ حکومت اور اپوزیشن میں شامل تمام جماعتیں میثاق جمہوریت کرلیں جس میں ایک دوسرے کو بچانے اور اپنے اپنے اقتدار کی باریاں لگانے کی مفاداتی سیاست کی قربانی دیکر ملک و قوم کے استحکام اور عوام کی فلاح کی سیاست کا عہد کیا جائے تو اس سے یقیناً سلطانیٔ جمہور کو استحکام ملے گا اور کسی کیلئے اس کیخلاف ماضی جیسی محلاتی سازشوں کا موقع نہیں نکل سکے گا۔ اس مقصد کیلئے قومی سیاسی قیادتوں کو بہرصورت ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور شائستگی و رواداری کی سیاست کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمارے آج کے حالات بھی اس امر کے ہی متقاضی ہیں کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں کا راستہ دکھانے سے گریز کیا جائے تاکہ اتحادِ ملک و ملت کی فضا مستحکم ہوسکے۔ یہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں پر منحصر ہے کہ وہ ملکی اور قومی مسائل کے حل کا سوچتی ہیں یا ماضی کی طرح اپنے اپنے مفادات کی اسیر رہتی ہیں۔